پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قیام کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ایک عرصے سے کوشش کر رہے تھے کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کے خلاف جمہوری سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں۔ اس مقصد کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کی میزبانی میں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کے بعد پی ڈی ایم وجود میں آئی۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق سلیکٹڈ وزیراعظم سے استعفیٰ لینے پر تھا تاہم اسمبلیوں سے اپوزیشن کے مستعفی ہونے کا آپشن آخری تھا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے وجود میں آنے کے بعد سارا زور اسمبلیوں سے استعفے دینے پر رہا۔ ہم پوچھتے ہی رہے کہ ہمیں اسمبلیوں سے نکلنا ہے یا سلیکٹڈ کو نکالنا ہے؟ اس سوال کا ہمیں تسلی بخش جواب ملا ہی نہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تجویز دی کہ پی ڈی ایم ضمنی انتخابات میں حصہ لے، ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا پھل جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ن کو بھی ملا، اس کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی نے تجویز دی کہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیا جائے اس تجویز کا فائدہ بھی ان جماعتوں کوہوا۔ تاہم قومی اسمبلی سے سید یوسف رضا گیلانی کا سینیٹر منتخب ہونا نہ پی ٹی آئی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کو ہضم ہوا۔ رہی بات سینیٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کے قائدِ حزب اختلاف بننے پر اعتراض کی تو جمہوری اور اخلاقی لحاظ سے تو اس پر اعتراض کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں کوئی پارٹی عمران خان سے راہیں جدا کرے تو منظور مگر جب سینیٹ میں ایک گروپ آزاد گروپ بن کر حکومتی بینچوں سے علیحدگی اختیار کرکے حزب اختلاف کا حصہ بن جائے تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ 2002میں پرویز مشرف کا اقتدارجب ایل ایف او سمیت ڈوب رہا تھا تو کس نے ان کا ساتھ دیکر ایل ایف او کو آئین سے نتھی کردیا تھا؟ ایسے لگتا ہے جیسے یہ واردات دہرائی جا رہی ہو ورنہ پی ڈی ایم میں شامل دو جماعتیں اپنی بندوقوں کا رُخ عمران خان سے ہٹاکر ہماری طرف نہ کرتیں۔ بہرحال ہمیں کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ ماضی میں بھی ہم نے جمہوریت کی جنگ اکیلے ہی لڑی ہے۔ میرے لئے فخر اور اعزاز کی بات ہے کہ میں جیالا ہوں، ہماری مائیں ہم سے بھٹو خاندان جیسی بہادری کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لئے ہماری قیادت پر طنز کرنے سے پہلے طنز کرنے والے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود سے سوال کریں کہ کیا ان میں جیالوں جیسا حوصلہ ہے؟ جان بخشی کی خاطر جلاوطنی تو میرے عظیم قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی اختیار کر سکتے تھے لیکن اُنہیں قوم کا مفاد عزیز تھا، محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ایک سفاک آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا، جیل کی سختیوں نے اُن کا حوصلہ پست نہیں کیا، ملتان ایئر پورٹ پر بالوں سے پکڑ کر انہیں جس ظالمانہ انداز میں گھسیٹا گیا ایسے حالات کا سامنا تو کسی اور نے نہیں کیا۔ ہم کسی سے ایسے سلوک کا سامنا کرنے کا تقاضا بھی نہیں کرتے۔
اب آتے ہیں سینیٹ میں آزاد گروپ کی طرف سے سید یوسف رضا گیلانی کی حمایت کرنے پر تنقید کرنے والوں کی طرف۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ان دوستوں پر حیرت ہو رہی ہے جنہوں نے عمر تو پارلیمنٹ میں گزاری مگر پارلیمانی سیاست کے آداب اور اصول نہیں سیکھے۔ خدا کے بندو قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں دھچکا تو سلیکٹڈ کو لگا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اصل چوٹ تو عمران خان کو لگی ہے لیکن تکلیف ہمارے اپنے اتحادیوں کو ہو رہی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں عمران خان کو شکست دی ہے جو ان کی قائدانہ صلاحیت کا مظہر ہے، اگر پی ڈی ایم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ پر بائیکاٹ کا فیصلہ نہ کرتی تو قوی امکان تھا کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کی مصنوعی اکثریت کا بھانڈہ پھوٹ جاتا۔ اس لئے تو پیپلز پارٹی کا اصولی موقف رہا ہے کہ اپنے مخالف کیلئے میدان کھلا نہ چھوڑا جائے، ہم میدان میں مقابلہ کرنے والے سیاسی کارکن ہیں، میدان چھوڑ کر بھاگنے والے ہر گز نہیں۔ میرے قائد آصف علی زرداری بھی پرویز مشرف سے ڈیل کرکے ملک سے باہر جا سکتے تھے مگر انہوں نے شہید بھٹو کے جیالوں کو شرمندہ نہیں کیا۔ میرے قائد آصف علی زرداری محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی کمزوری بننے کی بجائے ان کیلئے طاقت اور حوصلہ بنے رہے۔ موجودہ وزیراعظم کے دور میں بھی سخت بیمار ہونے کے باوجود علاج کیلئے بیرون ملک گئے، نہ عدالت سے رجوع کیا اورنہ ہی عمران خان سے کوئی اور درخواست کی۔ وہ بیک وقت بیماری سے بھی لڑتے رہے اور سیاسی تعصب کی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات کا عدالتوں میں سامنا بھی کرتے رہے۔ اگر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا شوق ہے تو یہ ان کا حق ہے، وہ اس حق کو شوق سے استعمال کریں، چھپنے کی کوشش نہ کریں۔
پی ڈی ایم کی طرف سے ہمیں شو کاز نوٹس ملا ہے وہ بھی اس بات پر کہ ہم نے سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی طاقت میں اضافہ کیوں کیا ہے؟ غور طلب بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے صدر علیل ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم صدر نے سفید کاغذ پر دستخط کرکے اُسے مسلم لیگ ن کے حوالے کردیا ہے؟ اگر پی ڈی ایم کے صدر بیمار ہیں تو سینئر نائب صدر تو راجا پرویز اشرف تھے، ان سے میٹنگ کرنے کی بجائے شاہد خاقان عباسی نے یہ عمل کیسے کیا؟ میری درخواست صرف یہ ہے کہ مقابلہ کرنے کی سکت نہیں تو خاموشی سے راہیں الگ کرلیتے، پی ڈی ایم کو تو تختۂ مشق نہ بناتے۔ بس اپنی بزدلی کا نزلہ ہم پر گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے ہی حالات پر شاعر نے خوب کہا تھا کہ ’’بت بھی کہتے ہیں کافر کافر، خدا کی قدرت ہے‘‘۔