سری نگر کے خاندانوں کے گلگت میں پیدا ہونے اور پلنے و الے دو کشمیری سپوتوں کو ہم اگرچہ یاد رکھیںیا نہ رکھیں مگر تاریخ انہیں ضرور یاد رکھے گی ان میں سے ایک تو کے ایچ خورشید ہیں جو اپنے والد کی ملازمت (ٹیچنگ) کے سلسلے میں بچپن میں گلگت میں ر ہے اور ایک حادثے نے انہیںہم سے چھین لیا اور دوسرے امان اللہ خان جوگلگت میں پیدا ہوئے اورگزشتہ دنوںاللہ کو پیارے ہوگئے۔ان دونوں کشمیری لیڈروں میں بہت سی قدریں مشترک تھیں دونوں نے نظریہ کہ بنیاد پر سیاست کی اور اپنے نظریے سے اخلاص دونوں کا طرہ امتیاز رہا سیاست کو خدمت اور عبادت سمجھا کبھی کاروبار نہیں بنایا۔ اپنے نظرئیے اور سیاست کو بہت کچھ دیا اس سے کچھ لیا نہیں اپنے اور اپنے خاندان کیلئے سر چھپانے کی جگہ تک نہ بنائی کشمیر ہی دونوں کی سوچ کا محور اور مرکز رہا اسی کیلئے جہدِ مسلسل کرتے رہے اسی لئے دونوں اطراف کے کشمیری ان دونوں کو اپنا لیڈر مانتے ہیں ان کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر اپنے نظریات سے ان کی کمٹمنٹ، ان کی دیانت ان کی شرافت، ان کی سچائی اور ان کی ذہانت سے کسی دشمن کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ امان اللہ خان کی کشمیر کے حوالے سے جدوجہد کی کہانی کا اہم نکتہِ آغاز 1962تھا جب وہ قانون کے طالبعلم تھے انہوں نےوائس آف کشمیر "کے نام سے ایک ماہنامہ رسالے کا اجرا کیا جو خود مختار کشمیر کے نظریے کا پرچار کرتا تھا کچھ سال کے بعد اگرچہ حکومتی دباؤ کے بعد اُسے بند کردیا گیا مگر 1976میں برطانیہ سے دوبارہ اس کا اجراء کیا گیا۔امان اللہ خان نے اردو اور انگریزی میںمسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں پر تین کتابیں،60سے زائد کتابچے بروشر اور پمفلٹس،100سے زا ئدلیفلٹس،اور اتنے ہی مضامین لکھے جو پاکستان، بھارت، کشمیر ،یورپ، امریکہ اور عرب ممالک کے معروف اخبارات و رسائل میں چھپے۔امان اللہ خان وہ واحد کشمیری لیڈر تھے جنہوں نے کشمیر ایشو کے حوالے سے بیرون ممالک میں بھی قید کی سزا کاٹی برطانیہ میں وہ 16ماہ بلجیم میں وہ تقریباً 2ماہ اور نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے لاک اپ میں انہیں ایک دن قید رکھا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کشمیر ،ہندواڑہ میں گلگت ، راولپنڈی،کراچی اور لاہور کے شاہی قلعے میں بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بھارت نے ان کی گرفتاری کے لئے انٹرپول کےذریعے "ریڈ نوٹس"تک جاری کیا تھا ۔1973میں امان اللہ خان کو پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی صدارت کی پیشکش کی گئی اور ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ انہیں بعدازاں یہاں کا پہلا چیف منسٹر بنا دیا جائے گا مگر انہوں نے سختی سے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے سیاسی فلسفے اور نظریے کے بالکل خلاف ہے۔امان اللہ خان سیاست مین قومی یکجہتی پر مکمل یقین رکھتے تھے اور کئی بار اس حوالے سے انہوں نے کوششیں کیں 1966 میں ان کی سوچ اور تجویز کی وجہ سے آزاد کشمیر کی تین جماعتیں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس، جموں وکشمیر لبریشن لیگ اور جموں و کشمیر محاذِ رائے شماری ایک میز پر بیٹھے اور کشمیر ایشو پر بہت سی مشترکہ باتوں پر اتفاق کیا۔ 1988میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے کشمیر کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا 18 ماہ تک جے کے ایل ایف بھارتی فورسز کے خلاف لڑتی رہی اس کے بعد دیگر کشمیری گروپوں نے مسلح جدوجہد شروع کی۔1992سے 1999تک چار بار امان اللہ خان نے جے کے ایل ایف کی قیادت کرتے ہوئے غیر مسلح اور پرامن طور پر کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی خونی لکیر "کنٹرول لائن"کو عبور کرنے کی تاریخی کوششیں کیں جس کی وجہ سے دنیا کی توجہ کشمیر ایشو کی جانب مبذول ہوگئی۔ 1992میں اس "وینچر"کی میں نے مکمل کوریج کی تھی ہزاروں لوگوں نے امان اللہ خان کی قیادت میں مظفرآباد سے چکوٹھی کی طرف پیدل مارچ کیا تھا مجھے یاد ہے کہ میرے ساتھ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں سمیت نیشنل پریس کلب کے موجودہ صدر شکیل انجم اور معروف صحافی سعود ساحر بھی تھے امان اللہ خان اور دیگر قیادت ایک جیپ میں سوار تھی حکومت کی جانب سے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں سڑک پر کئی مقامات پر مٹی کے ڈھیر ڈال کراسے بند کیا گیا تھا ایسی جگہوں سے جیپ کو لوگ اُٹھا کر اور دھکے لگا کر کراس کرواتے ،ہمارے سروں پر ایدھی کا ہیلی کاپٹر(ائیر ایمبولینس)اور فورسز کے ہیلی کاپٹر بھی پرواز کر رہے تھے۔ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی جیپ کے پیچھے دیوانہ وار پیدل چل رہے تھے نہ انہیں بھوک کا احساس تھا اور نہ تھکاوٹ کا بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ خونی لکیر کو پار کرنا ہے جس نے ایک جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے ۔شام کو یہ جلوس چکوٹھی لائن آف کنٹرول پر پہنچا تو پاک فوج نے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی اور کہا کہ آگے بھارتی فوج مورچے سنبھالے بیٹھی ہے وہ فائرنگ کر دیں گے۔امان اللہ خان نے وہاں پر ہی پڑاؤ ڈالنے کا حکم دے دیا ۔مجھے یاد ہے کہ شام کے اُس ملگجے اندھیرے میں، میں اور کچھ اور صحافی جناب سعود ساحر کی قیادت میں کنٹرول لائن کی طرف بڑھے کہ آگے دیکھیں کیا ہے اور کسی سے بات کریں اچانک ایک آواز فضا میں گونجی"ہالٹ!"ہم پھر بھی نہ رکے اورسعود ساحر نے اپنا اور ساتھیوں کا تعارف کروانا شروع کردیا کہ ہم لوگ صحافی ہیں مگر دوسری بار پھر وہی آواز گونجی ہالٹ۔۔!ہم میں موجود ایک صحافی نے جو "ہالٹ" کی اصطلاح سے بخوبی واقف تھا کہا کہ تیسری بار ہالٹ کی بجائے آگے سے گولی آئے گی اس کا یہ کہنا تھا کہ ہم الٹے قدموں واپس پلٹے۔ جب امان اللہ خان کویہ سارا ماجرہ معلوم ہوا تو وہ خود ہمارے پاس آئے اور ہمیں احتیاط کرنے کا مشورہ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ میرا مقصد یہاں جانوں کا ضیاع نہیں بلکہ پوری دنیا کی توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف مبذول کروانا تھا آج پوری دنیا کا میڈیا یہاں موجود ہے اور وہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھ رہا ہے۔ان کی وفات نے بہت سی پرانی یادوں کو تازہ کردیاان سے کافی ملاقاتیں رہیں ان کے بہت سے انٹرویو لئے ان کی بہت سی پریس کانفرنس کور کیں ان سے بہت سے بیانات لئے اور ایک سوال کی صورت میں اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ پتہ نہیں کیوں یہ گلگت میں پیدا ہونے والے اور وہاں پلنے وا لےکشمیری لیڈر ایک جیسے کیوں ہوتے ہیں؟