کوئن میری یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اپنے ارد گرد سے انسانوں اور جانوروں کا ڈی این اے کشید کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ اس عمل میں اطر اف کی ہوا اور ماحول سے ڈی این اے نکالا جاتا ہے ۔اسے’’ انو ائرمینٹل ڈی این اے ‘‘(ای ڈی این اے ) کانام دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی کی سالماتی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلز بتھ کلئیر کا کہنا ہے کہ اس طرح ہم پانی ،مٹی اور دیگر مقامات سے بھی ڈی این اے اخذ کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی تالاب یا دریائی حصے میں ڈی این اے کی آزمائش سے وہاں موجود مچھلیوں کی اقسام معلوم کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ اس سے قبل مٹی اور پانی سے مختلف انواع اور اقسام کے جانوروں کے ڈی این اے نکالے گئے ہیں لیکن ہوا کے لیے ای ڈی این اے کی آزمائش نہیں کی گئی تھی۔
اس ضمن میں کوئن میری یونیورسٹی کی تحقیق دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک قسم کے بغیر بال والے نابینا چوہوں (نیکڈ مول ریٹس) کو ایک کمرہ نما فارم میں ایک برس تک رکھا ،تاہم سائنس داں وقفے وقفے سے اس کمرے میں جاتے رہتے ۔
یہاں ہوا کے فلٹر بھی نصب کیے گئے تھے ،جس کے ذریعے ہوا کے نمونے جمع کیے گئے اور مرکزی کمرے کے اندر بھی ہوا کے نمونے حاصل کیے گئے ۔چوں کہ یہ چوہے بلوں میں رہتے ہیں اس لیے ایک بل پر لگائے فلٹر سے بھی ہوا جمع کی گئی ۔اہم بات یہ ہےکہ سرنگ نما بل کی ہوا اور کمرے کی ہوا میں چوہوں کے ڈی این اے نوٹ کیے گئے اور اس طر ح ہوا سے ڈی این اے نکالنے کا تجربہ کام یاب ہوگیا ۔
غیر متوقع طور پر ہوا کے اندر انسانی ڈی این اے بھی دیکھا گیا اور یہ ایک حیرت انگیز امر ہے۔ ماہرین پہلے اسے ایک طرح کی آلودگی قرار دیتے رہے لیکن اصل میں یہ تحقیق کا ایک نیا دور بھی ہے۔ماہرین کے مطابق اس طر ح ماضی کے راز فشاں کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ قدیم ڈی این اے کی شناخت اور دیگر پہلوؤں سے آثارِ قدیمہ اور بشریات کے علم میں بھی مدد ملے گی۔ ڈاکٹر ایلزبتھ اس سے قبل جوہڑ اور تالاب میں ڈی این اے کی نشاندہی اور درجہ بندی پر کام کرچکی ہیں۔
اسی تجربے نے انہیں ہوا سے ڈی این اے کے اخراج پر مائل کیا۔ اس کے لیے انہوں نے خاص فلٹر بنائے اور ڈی این اے جمع کرنے والا ایک نظام ترتیب دیا۔