• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’رمضان المبارک‘‘ اہلِ ایمان کا ’’ری فریشر کورس‘‘

روزہ بظاہر ایک ایسا عمل ہے، جس میں آدمی دن بھر کھانے پینے اور بعض ایسے دوسرے فطری تقاضوں کو پورا کرنے سے رُکا رہتا ہے، جن پر عام حالات میں کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ ’’ہمارے بھوکا، پیاسا رہنے سے اللہ تعالیٰ کو آخر کیا دل چسپی ہوسکتی ہے؟ اور اس عمل کی وہ کیا خصوصی اہمیت ہے، جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ہم ہی پر نہیں، ہم سے پہلے کی تما م امتّوں پر بھی اسے فرض کیا تھا؟اس عمل میں ہمارے لیے کون سے فوائد مضمر ہیںاور اس مشق کے ذریعے ہمارا خالق و مالک ہمیں کس مقصد کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے؟‘‘ یہ وہ سوالات ہیں ،جو روزے کے مقصد اور افادیت کے حوالے سے اکثر ذہن میں آتے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں ا نہی کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اردو زبان میں لفظ ’’روزہ‘‘ فارسی سے آیا ہے، جب کہ قرآن نے اس عبادت کے لیے ’’صوم ‘‘کی اصطلاح استعمال کی ہے۔صوم کے لغوی معنی ’’کسی کام سے رُک جانے یا اسے ترک کردینے ‘‘کے ہیں۔ عرب اپنے گھوڑوں کو سفر اور جنگ کے لیے تیار کرتے، تو انہیں تربیت کے خصوصی مراحل سے گزارتے اور مشقّتوں کا عادی بناتے تھے ۔ 

اس تربیت میں متعیّن وقفوں کے لیے چارے اور پانی کی بندش بھی شامل ہوتی تھی۔ چناں چہ’’ الخیل الصائم ‘‘اس گھوڑے کو کہتے تھے ،جس کا چارہ اور پانی بند کردیا گیا ہو۔ اس مختصر سی لغوی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ روزے کی مشقّت سے گزار کر انسانوں کا مالک انہیں بھی کسی بڑے مقصد کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ مقصد کیا ہے۔ ہجرتِ نبویؐ کے دوسرے سال، سورۃالبقرۃ کی جس آیت میں روزے کی فرضیت کا حکم آیا، اس کا ترجمہ ہے ’’اے لوگو !جو ایمان لائے ہو، تم پر بھی روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کی اُمّتوں پر فرض کیے گئے تھے۔توقع ہے کہ اس سے تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ روزے کا مقصد اہلِ ایمان میں تقویٰ کی صفت کو پروان چڑھانا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ’’ تقویٰ کیا ہے اور یہ روزے کے ذریعے کیسے حاصل ہوتا ہے؟ ‘‘ اسلامی اصطلاح کی حیثیت سے تقویٰ کے معنی’’ اللہ سے ڈرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے کےہیں۔ زندگی کو جانوروں کی طرح بے سمجھے بوجھے نہیں، عقل و شعور کی نعمت رکھنے والی مخلوق کی حیثیت سے پورے احساسِ ذمّے داری کے ساتھ بسر کرنے کے ہیں۔‘‘ چناںچہ قرآن میں متعدّد مقامات پر اہلِ تقویٰ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ دنیا میں اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہیں گزارتے بلکہ ہر لمحے اپنی عقل وشعور کا استعمال کرتے ہیں۔ کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کرتے اور اس طرح اپنے خالق و مالک کے مرتبے اور اس کی بنائی ہوئی دنیا میںاپنے مقام کا عرفان حاصل کرتے ہیں۔‘‘

سورۃآلِ عمران میں ایسے لوگوں کا ذکر نہایت دل نشین اور پُر اثر انداز میں یوں کیا گیا ہے ’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں،جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہرحال میں خدا کو یاد کرتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور وفکر کرتے ہیں(اور بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں ) پروردگار! یہ سب کچھ تُونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا، تُو پاک ہے ،اس سے کہ لایعنی کام کرے۔پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘

لفظ تقویٰ کی ایک نہایت خُوب صُورت اور جامع تشریح وہ ہے، جو دَورِ صحابہؓ کے مفسرِ قرآن ،حضرت اُبی ابنِ کعب رضی اللہ عنہ نے خلیفہ دوم، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس استفسار کے جواب میں فرمائی کہ’’ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟‘‘ اس پر حضرت ابنِ کعبؓ نے ان سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ کبھی ایسے کسی تنگ راستے سے گزرے ہیں، جس میں دونوں طرف کانٹوں بھری جھاڑیاں ہوں؟‘‘ امیرالمومنین نے فرمایا ’’بارہا‘‘ حضرت اُبی ابن کعب ؓنے پھر پوچھا ’’ایسے موقعے پر آپ راستہ کیسے طے کرتے ہیں؟‘‘ 

فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’’ مَیں دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بچتا ہوا چلتا ہوں کہ دامن کانٹوں میں الجھنے نہ پائے‘‘۔حضرت ابی ابنِ کعبؓ نے فرمایا ’’اِسی کا نام تقویٰ ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا راستہ دونوں طرف سے خواہشات اور ترغیبات میں گِھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر اپنے دامن کو کانٹوں سے بچاتے ہوئے چلنے کی ہرممکن کوشش کرنااور اطاعتِ حق کے راستے سے ہٹ کر نافرمانی اور بدکرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا ہی تقویٰ ہے۔تقویٰ کی اسی صفت کو انسان کے فکروعمل اور سیرت و کردار میں پروان چڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں۔

سال میں مسلسل تیس دن تک روزوں کی یہ سالانہ مشق اہلِ ایمان کو اسی اطاعت کی تربیت دینے کے لیے لازم کی گئی ہے۔یہ عمل ہرسال پورے ایک مہینے آدمی کو صبح سے شام تک اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل لازمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اس کو اپنے آقا کی اجازت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کھانے کا ایک نوالہ اور پانی کی ایک بوند تک وہ اپنے حلق سے اُس وقت تک نیچے نہیں اتار سکتا ،جب تک اللہ کی بارگاہ سے اُسے ایسا کرنے کی اجازت نہ مل جائے۔خاص بات یہ کہ اس پر بظاہر کوئی اسے مجبور نہیں کرتا، بلکہ ان پابندیوں پر وہ بالکل رضاکارانہ طور پر عمل کرتا ہے۔ اپنے ربّ پر صرف اس کا یہ یقین کہ وہ ہر جگہ اور ہرحال میں اسے دیکھ رہا ہے، اسے ان پابندیوں کو توڑنے سے باز رکھتا ہے۔

دنیا والوں کی نظروں سے چُھپ کر وہ جب چاہے بڑی آسانی سے ،اپنی وہ ساری ضروریات پوری کرسکتا ہے جن کی تکمیل کی اجازت روزے کے دوران نہیں ہوتی ،لیکن محض اللہ پر اس کا ایمان اسے ایسا کرنے سے روکے رکھتا ہے۔اس طرح روزہ ایک ایسی عبادت بن جاتا ہے، جس میں دکھاوے کا کوئی شائبہ بھی شامل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ارشادِ نبویؐ کے مطابق ’’اللہ تعالیٰ نے روزے کو اپنی خاص الخاص عبادت قرار دیا ہے ۔‘‘ اللہ کا فرمان ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر مَیں خود ہوں۔‘‘ گویا حقیقی معنوں میں روزہ رکھنے والا اللہ کو پالیتا ہے، جو ہرصاحبِ ایمان کا اصل مقصود ہے۔ اس طرح روزہ انسان کے سیرت و کردار میں تقویٰ کی پرورش و پرداخت کا بہترین ذریعہ بن جاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ اس مشق کو محض رسم ورواج کے طور پر نہ اپنایا جائے بلکہ پورے شعور کے ساتھ انجام دیا جائے۔

ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ ’’آخر روزوں کو رمضان ہی میں کیوں فرض کیا گیا ؟ ‘‘سال کے باقی گیارہ مہینوں میں سے اس مقصد کے لیے کسی اور مہینے کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا؟ سورۃالبقرۃ میں اس سوال کا جواب بھی پوری وضاحت کے ساتھ یوں دیا گیا ہے’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ،جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔

لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘ اس آیت میں روزوں کے لیے رمضان کے مہینے کے انتخاب کا واحد سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رمضان میں روزوںکی فرضیت کا مقصد مسلمانوں کے اندر وہ روحانی پاکیزگی اور بلندی پیدا کرنا ہے، جو انہیں قرآن کے سانچے میں ڈھالنے کا ذریعہ بن سکے۔

اُمّ المومنین ،حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نبی ﷺ کے اخلاق و عادات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؓ نے پوچھنے والے سے فرمایا’’کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟‘‘ سائل نے اثبات میں جواب دیا ،تو اُمّ المومنین ؓنے ارشاد فرمایا ’’رسول اللہ ﷺ کے اخلاق و عادات عین قرآن کے مطابق تھے۔‘‘ نزولِ قرآن کے مہینے میں روزے فرض کرکے دراصل ہر مسلمان کو قرآنی اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈھالنا مقصود ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ روزے سے یہ مقصد کیسے حاصل ہوتا ہے؟‘‘

اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ بشری تقاضوں سے روک کر انسان کی روحانی ترقّی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور انسان جوں جوں مادّیت کی سطح سے بلند ہو کر اپنی ذات میں تقویٰ کی نشوونما کے ذریعے روحانیت کے مدارج طے کرتا ہے، قرآن کے معنی اور مفاہیم کو سمجھنے کی استعداد اس کے اندر ترقی کرتی جاتی ہے۔ اللہ نے جس طرح اپنا پیغام دینے سے پہلے اپنے رسولوں کو ایک حد تک ترک ِدنیا کے اس عمل سے گزارا ، اسی طرح تمام اہلِ ایمان کے لیے بھی اس نے ایک حد تک اس کا اہتمام کیا ہے۔

جہاں تک انبیاء کا معاملہ ہے، تو ہمیں معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو توریت کے احکام اس وقت عطا کیے گئے جب آپ نے چالیس شب وروز کوہِ طور پر روزوں اور عبادت میں گزارے۔ یہودی انسائیکلو پیڈیا(Jewish Encyclopedia) کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بھی اپنی نبوّت کے آغاز سے قبل چالیس دن تک روزہ رکھا۔اس کے بعد ان پر وہ الہام ہوا ،جو پہاڑی کے وعظ کی شکل میں انجیل میں موجود ہے۔اسی طرح وحی کے نازل ہونے کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے نبی اکرم ﷺ کا ایک عرصے تک یہ معمول رہا کہ آپ کئی کئی روزوشب کے لیے غارِ حرا تشریف لے جاتے ،جہاں روزوں، عبادات اور ذکرو فکر میں وقت گزارتے۔ 

ایک عرصے تک اس عمل کے جاری رہنے کے بعد اللہ نے اپنے فرشتے کے ذریعے اسی غار ِحرا میں پہلی وحی نازل فرمائی۔اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اگرچہ اپنی شکل و صُورت کے لحاظ سے صبح سے شام تک کھانے پینے سے رُکے رہنے کا نام ہے، مگر اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی دنیا سے بے رغبتی اختیار کرے،ہر اُس چیز میں کمی کردے جو مادّی اعتبار سے عام حالات میں انسان کو درکار ہوتی ہے۔ بولنے، ملنے جلنے، کھانے پینے، غرض اپنے تمام مادّی نوعیت کے معمولات کم کردے۔

حتیٰ کہ ممکن ہو تو رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرکے دنیا کے معاملات سے تقریباً مکمل علیحدگی اختیار کرلے اور پوری طرح صرف اللہ کی طرف متوجّہ ہو جائے۔ قرآن کو زیادہ سے زیادہ پڑھے، اس پر غور وفکر کرےاور اپنی پوری زندگی قرآن کے مطابق ڈھالنے کی شعوری اور عملی جدّوجہد کرے۔ یہ ہے وہ مقصد ، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہرسال ایک مہینے کا یہ ’’ری فریشر کورس ‘‘ہمارے لیے لازم کیا ہے۔

قرآن سے تعلق اور تقویٰ کی آب یاری ، یہی وہ زادِراہ ہے ، جو دنیا اور آخرت میں ہمارے لیے عزّت اور کامرانی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ تاہم، اس کا حصول اسی صورت ممکن ہے، جب ہم رمضان کو سحر و افطار کے چٹخاروں اور پرخوری و شکم سیری کا مہینہ بنانے کے بجائے، پورے شعور کے ساتھ اس کے اصل مقاصد کو سامنے رکھیں، اس ماہِ مبارک کا ایک ایک لمحہ ایمان و احتساب کے ساتھ گزارنے کی پوری کوشش کریں، کیوں کہ اس اہتمام کے بغیر رکھے جانے والے روزوں کی کوئی قدر وقیمت اللہ کی نظر میں نہیں ہے۔

اس حقیقت کو اللہ کے رسول ﷺنے یوں بیان کیا ہے، ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں، جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں ،جن کے حصّے میں اس مشقت سے رَت جگے کے سوا کچھ نہیں آتا۔‘‘ (سنن الدارمی) اسی حوالے سے ایک اور حدیثِ نبوی ﷺ کے الفاظ کچھ یوں ہیںکہ ’’ جس شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ کواس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے‘‘ (بخاری، کتاب الصوم)۔

تازہ ترین