• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کی تیسری لہر نے تو گلی گلی اُداسی پھیلا دی ہے۔ کہاں سے شروع کروں کہ ہندوستان میں اپنے شہر، بلند شہر سے کہ جہاں ایک ہندو بوڑھے کا جنازہ اُٹھانے کو اولاد تک نہیں آئی تو چار مسلمان ہمسائے سفید ٹوپیاں پہن کر آئے، شمشان گھاٹ پہنچایا۔ یہ اور ایسے کئی منظر میرے سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں لاہور شہر میں میرا عزیز دوست مجھے آپی کہنے والا شوکت علی ہمیں بالکل بنجر کر گیا۔ میں اُسے اپنی آواز کی حفاظت کرنے کی دعائیں دیتی اور وہ میرے گھٹنوں پر ہاتھ لگا کر ہمیشہ ہی انکساری کا اظہار کرتا۔ مشرقی پنجاب جاتی، سب شوکت علی اور پرویز مہدی کو یاد کرتے۔ ہوٹل ہو یا گھر وہ فقیروں کی طرح آتا، کبھی نہ کہتا ’’میرے سازندوں کو پیسے دو‘‘ کہ یہ محاورہ ہمارے بہت سے گلوکار دوستوں نے اپنایا ہوا تھا کہ میں تو اپنے لئے آپ سے کچھ نہیں مانگتا، بس سازندوں کو پیسے دیدیں۔ اس نے اکثر اپنی گائیکی کا آغاز اس مصرعے سے کیا ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے‘‘۔ وہ اتنا پیار کرنے والا تھا کہ منو بھائی ہو کہ خواجہ نجم، فقیر بن کر بیٹھتا تھا۔ اس نے اپنے جوان بیٹے کو اپنے جیسا گائیک بنانے کی کوشش کی۔ وہ گاتو رہا تھا، اچھا گا رہا تھا مگر شوکت کی آواز کو تو کوئی بھی نہیں پہنچ سکا۔ جب وہ بہت اونچے سروں میں گانا شروع کرتا، ہماری سانسیں رُک جاتیں کہ سر کو نیچے کیسے لائے گا۔ بےپناہ تالیوں نے اس کا استقبال جوانی ہی سے کیا تھا۔ اسپتال میں سارے اسٹاف نے بےپناہ محبت سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کی۔ اس نے تو عمران خان کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کا بہت کام کیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ شوکت کے مرنے پہ اظہار غم ہی کیا کافی تھا اور افسوس کس بات کا، ہم نے تو نورجہاں جیسی لازوال آواز کو رات کے اندھیرے میں کراچی میں دفن کردیا تھا۔ جواز یہ بنایا تھا کہ رمضان کی ستائیسویں میں وہ انتقال کرگئیں تو اُسی مقدس رات میں نورجہاں کو دفنا دیا گیا۔ اس کا شہر لاہور، اس کا شہر قصور اور وہ سارے فوجی جوان جن کے لئے اس نے قومی نغمے گائے تھے۔ سب اس کو کندھا دینے کو بے چین رہے۔ نورجہاں کے نام پر ایک چوک کا نام رکھ دینے سے، ہم دنیا کو کیا اور کیسے منہ دکھاتے ہیں۔

کورونا نے ہمارے بہت خاموش مگر اچھے شاعر کو ایسا بھنبھوڑا کہ بھائی، بہن دوسرے شہروں میں تڑپتے رہے۔ یہ ہمار ا دوست شفیق سلیمی، جلیل عالی کا بھائی اور ہجرت کے موضوع پر سب سے پہلے شعر کہنے والوں میں تھا۔ کیا قیامت ہے کہ کورونا نے تو سنگ میل کا بھرا پرا خاندان اُجاڑ دیا۔ خاندان میں افضال ہی سب سے بڑا تھا۔ پہلے اس نے ماں کے جنازے میں، بھائی اور اپنے بیٹوں کو کندھا دینے کو کہا۔ ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے کہ لندن سے آئی بہن بھی کورونا کے باعث جناز گاہ پہنچ گئی سر پہ ہاتھ رکھنے کیلئے کیلئے ہم جیسے بڑے، جن کے لئے سنگ میل ایک خاندان تھا۔ جہاں کبھی سردیوں کبھی گرمیوں میں نیاز صاحب ادیبوں کا موج میلہ کرتے تھے۔ یااللہ! کندھا دینے والوں کو سلامت اور باہمت رکھنا۔

کراچی میں خاندان کے کئی بزرگ، اپنے کندھا دینے والوں کو یاد کرتے چلے گئے۔ لوگ کورونا سے ڈرے، اپنے خوف، اپنے رشتوں کو بھی بھول گئے۔ ثمر من اللہ کے جیٹھ اسلام آباد میں کورونا کا شکار ہوئے۔ ان کی بہن لاہور میں تڑپتی رہی مگر بچوں نے اُسے آنےنہ دیا۔ کورونا کے مریضوں کو تو پاکستان کیا، دنیا بھر میں گورکن، مشکل اور ترلے کرنے پر ہاتھ لگاتے ہیں۔ کورونا بہار کو کھا گیا، کورونا چمن کو اجاڑ گیا۔ کورونا توموت کے گلے میں بانہیں ڈالے آیا ہے۔انڈیا اور امریکہ میں تو روز کی ہلاکتیں ایک لاکھ سے بھی بڑھ گئی ہیں۔ انڈیا میں کسانوں کے مظاہروں نے دنیا بھر کے میڈیا کو ہلادیا ہے مگر شقی القلب حکومت، گندم کی کٹائی کے موقع پر کسانوں کی دہائی نہیں سن رہی ہے۔

اس وقت ساری دنیا کو بھی کورونا کی وجہ سے سانپ سونگھا ہوا ہے چاہے کشمیر ہو کہ رونڈا کہ برما کہ یمن، بربادیوں کو دنیا دیکھ رہی ہے۔ مجال ہے بیان بازی سے آگے بڑھے۔ افغانستان میں تو طالبان، کام کرنے والی عورتیں ،خواہ پولیو ورکر ہوں کہ ٹی وی کی ملازم، ایک ایک کرکے مار رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی جس طرح آفریدی جج کے پورے خاندان کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ پہلے تو کورونا کے نام پہ لوگوں کو مروایا جا رہا تھا اور اب سر میں گولی مارنے والے دندناتے پھر رہے ہیں۔

میرے جیسے بہت سے دنیا بھر کے والدین کے بچے غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ وہ سب بھی بلکہ ان کے پورے پورے خاندان، کورونا کے عذاب سے گزرے ہیں۔ ہم لوگ تو پاکستان میں دوسرے شہر میں مرنے والوں کو صرف دعائیں اور آخرت کے بہتر ہونے کا کہہ سکتے ہیں۔ میری ایک نوجوان بھانجی، واشنگٹن میں زندگی سے دور چلی گئی۔ کیا نقشہ تھا کہ ہم سب زوم پر اس کے جنازے میں شریک ہوئے۔ دعا کریں سب خاندانوں کو اس عذاب سے نجات ملے مگر کیا رمضان میں سموسہ بیس روپے کا ملے گا اور ہم چار بجے دن سے خرید نے جائیں گے، سماجی فاصلے سے روگردانی کرتے ہوئے پکوڑے اور جلیبیاں اپنے ہاتھ سے اٹھا کر تھیلوں میں ڈال رہے ہوں گے۔ اب تو لگتا ہے کہ انسانیت بھی چھٹی پر گئی ہوئی ہے اور موت اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ امریکہ نے کورونا سے ڈرکے گوانتاناموبے جیل کا ایک حصہ بھی بند کر دیا۔ قیدیوں کو اور جگہ بھیج دیاہے۔

تازہ ترین