اسلام آباد(پورٹ:رانا مسعود حسین) وزیر اعظم کے اعزازی نمائندہ برائے مذہبی ہم آہنگی ، مولانا طاہر اشرفی کی جانب سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے استعفیٰ لینے یا انہیں تنبیہ کرنے کے حوالے سے چیف جسٹس گلزار احمد کو لکھے گئے ایک خط کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی مولانا طاہر اشرفی کو خط لکھ دیا ہے،یاد رہے کہ مولانا نے چیف جسٹس کو یہ خط جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیے زیر اہتمام ʼآئین ، اسلام اور بنیادی حقوق ʼکے عنوان سے دیے گئے ایک لیکچر کے حوالے سے لکھا تھا ، 13اپریل کوجسٹس قاضی فیض عیسیٰ کی جانب سے مولانا کو لکھا گیا خط بدھ کے روز میڈیا کو جاری کیا گیا ہے ،جس میںجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مولانا کے اس مطالبے کو غیر آئینی غیر اخلاقی اورغیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے تعجب ہوا ہے کہ آپ نے میری پیٹھ کے پیچھے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا ہے اور آپ نے اس کی کاپی بھی مجھے ارسال کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی ہے ،مجھے اس بات کا بھی دکھ ہے کہ آپ نے میری جانب سے وہ کلمات بھی منسوب کئے ہیں جونہ تو میں نے اپنی تحریری تقریر میں کئے لکھے تھے اور نہ ہی زبانی طور پر بیان کئے تھے ،اس بات کی تردید اس سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے اس خط میں میری تقریر سے کوئی اقتباس نقل نہیں کیا ہے ،انہوںنے لکھا ہے کہ آپ نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مجھےتنبیہ کریں ،بصورت دیگر میں مستعفی ہوجائوں،آپ پر واضح کیا جاتاہے کہ ہمارے آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ عدالت عظمیٰ کے کسی جج کو کوئی تنبیہ کرسکے ،اور جہاں تک مجھ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ ہے تو بہتر ہوتا کہ یہ مطالبہ آپ مجھ سے براہ راست کرتے ،آئین یہ ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے کہ چیف جسٹس کسی جج کو مستعفی ہونے کا حکم د ے سکے، نہ ہی یہ حق کسی آمر کوحاصل ہے ،مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مملکت اسلامیہ میں آمروں نے اکثر آزادعدلیہ پر حملے کرکے ججوں کو جبراً گھر بھجوایا ہے، یہ امر افسوسناک ہے کہ آپ جیسے دانشوروں نے اس کیخلاف نہ تو کبھی آواز اٹھائی اور نہ ہی ایسے جابروں پر تنقید کی ہے ،میرا پختہ ایمان ہے کہ 2009میں مجھے محض اللہ تعالی کے فضل سے بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا ،جس عہدے کی مجھے ذاتی طور پر کوئی خواہش نہ تھی ،اور پھر جب 2014میں سپریم کورٹ کا جج بنا یا گیا تو یہ میرا ایمان ہے کہ یہ بھی اللہ تعالی کا کرم تھا ،میں نے ان عہدوں کی ذمہ داری اس لئے قبول کی کہ میں لوگوں کو آئین اور قانون کے مطابق انصاف دے سکوں،جس دن مجھ پر یہ واضح ہوجائے گا کہ میں یہ نہیں کرسکوں گا ،میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر خود ہی مستعفی ہوجائوں گا ،مجھے تعجب ہے کہ آپ نے مجھے رہنمائی دینے کی بجائے مفروضوں پر ہی لوگوں کو اشتعال دلایا ہے ،آپ کی اپنی ذاتی رائے قرآن و حدیث سے مطابقت نہیں رکھتی ہے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لفظ آئین کے حوالے سے قرآنی حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک قسم کا میثاق ہوتا ہے اور دین نے میثاق یا معاہد ہ توڑنے کو سنگین جرم قرار دیا ہے، انہوںنے متعدد قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین توڑنا سنگین جرم ہے اور آئین کے آرٹیکل 6کے تحت اس کی سزا موت ہے ،پاکستان کے ہر شہری پر آئین کی پابندی لازم ہے ،اس کی خلاف ورزی پر اس کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، میں نے اپنے مقالے میں اپنے حلف کی پاسداری کی اہمیت بیان کی تھی اور کہا تھا کہ جولوگ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں، حلف کی خلاف ورزی کرکے نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کی سزا پائیں گے بلکہ مسلمان ہونے کے ناطے عہد کی خلاف ورزی پراللہ بھی انکو سزا دے گا ،انہوںنے لکھا ہے کہ وہ لوگ جنہوںنے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا تھا ،انہوںنے حلف توڑا جس کے نتیجے میں ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے ہیں ،اگر آپ جیسے دانشور اور عالم ان حلف شکن آمروں کیخلاف کھڑے ہوجاتے یا کم از کم اس کیخلاف آواز ہی اٹھاتے ،جیسا کی حدیث میں امر بالمعروف نہی عن المنکر کا ذکر ہے ،تو شاید جو ریاست پاکستان قائد اعظم اور ان کے رفقاء نے ،(جن میں میرے والد بھی شامل تھے) ،1947میں دی تھی ،وہ اب تک قائم رہتی،یعنی کہ پورا پاکستان (مشرقی اور مغربی)جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سلامی ملک ہوتا ،مشرقی پاکستان کے شہریوں،یا موجودہ بنگلہ دیشیوں میں اب بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے،مگر وہ مغربی پاکستانیوں یا موجودہ پاکستان کے ساتھ متحد نہ رہ سکے ،کیونکہ ہمارے کچھ فوجی جرنیلوںنے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور ان چند اشخاص کی حلف شکنی کی سزا سب سے بڑے اسلامی ملک کے باشندوںکو بھگتنا پڑی ہے ،آپ نے ان آئین شکن آمروںکیخلاف نہ تب آواز اٹھائی نہ بعد میں کبھی اٹھائی ہے ،انہوںنے سوال اٹھایا ہے کہ جو شخص غلط کام کیخلاف اٹھ کھڑا نہ ہو،کیا وہ اس میں اعانت کا مرتکب نہیں ہوتا ہے؟ ،آپ نے بغیر سوچے سمجھے ہی مجھ پر اسلام کی توہین کا قطعی بے بنیاد الزام لگا دیا ہے ،فاضل جج نے یہ خط رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھجواتے ہوئے انہیںہدایت کی ہے کہ چونکہ اس خط کے ذریعے میری ذات پر بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے ہیں اور میڈیا میں بھی لگائے جارہے ہیں، اس لئے یہ خط پریس کو بھجوانے کیساتھ ساتھ اسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی چڑھایا جائے ۔