• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لندن کا دریا ٹیمز شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔ اس پر بہت سے پل بنے ہوئے ہیں جن کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔ دریا کے دونوں طرف 3فٹ اونچی دیوار ہے جس کے ساتھ ساتھ چوڑا فُٹ پاتھ اور پھر دونوں طرف سڑکیں چلتی ہیں۔ سردیوں کی ایک شام جب دُھند چھائی ہوئی تھی اور ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی تو ایک نوجوان ٹیمز کی دیوار پر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے سخت بھوک لگ رہی تھی اور جیب بالکل خالی تھی۔ سردی اور بھوک کے عالم میں وہ گم صم بیٹھا تھا۔ اتنے میں سڑک پر ایک لمبی کار آکر رُکی۔ اس کار میں سے ایک باوردی ڈرائیور اُترا اور چلتا ہوا نوجوان کے پاس آیا اور کہا”سر آپ کو میڈم بلارہی ہیں“۔ نوجوان نے غور سے ڈرائیور کو دیکھا پھر کار کی طرف نظر کی تو اس کو کار میں ایک دوشیزہ بیٹھی نظر آئی وہ دیوار سے اُتر کر کار کی طرف چلنے لگا۔
کار کے پاس پہنچا تو دروازے کا شیشہ نیچے کرکے دوشیزہ نے کہا ”آپ کیا کر رہے ہیں…؟“نوجوان نے کہا ”بس یونہی بیٹھا تھا“ دوشیزہ نے کہا ”آئیے میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھئے“۔ ڈرائیور نے دوسرا دروازہ کھولا اور نوجوان گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گرم گاڑی میں اسے سکون محسوس ہوا۔ تھوڑی دیر میں گاڑی ایک وِلا کے اندر چلی گئی۔ وہاں ایک اور باوردی ملازم نے بڑھ کر کار کا دروازہ کھولا۔ پہلے دوشیزہ اُتری پھر نوجوان اُترا اور وہ گھر کے اندر داخل ہوئے۔ نوجوان سوچ رہا تھا یہ کسی لارڈ کا گھر ہے۔ دوشیزہ نے ملازم سے کہا کہ صاحب کو لے جاؤ، ان کو دوسرے کپڑے دو اور یہ کپڑے سُکھانے کے لئے ڈال دو“۔ ملازم نوجوان کو ایک طرف لے کر چلا گیا۔ اس نے گرم پانی سے غسل کیا پھر نئے کپڑے پہنے اور ابھی بیٹھا ہی تھا کہ دوسرا ملازم آیا اور اس نے کہا کہ ”مادام آپ کا کھانے کی میز پر انتظار کررہی ہیں“۔
کھانے کی میز بہترین کھانوں کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔ اس نے سوپ لیا، وہ کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ قسمت اس پر کس طرح مہربان ہوئی ہے! کھانے کے بعد دوشیزہ نے ملازم سے کہا کہ صاحب کو ان کے کمرے میں لے جاوٴ۔ کمرے میں آکر وہ وکٹورین طرز کے خوبصورت پلنگ پر بیٹھا تھا کہ دروزے پر دستک ہوئی اور ملازم نے اطلاع دی کہ ”مادام آپ سے بات کرنے آرہی ہیں“۔ دوشیزہ نے کمرے میں رکھے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا” آپ تھک گئے ہوں گے۔ میں صرف اس وقت ایک دومنٹ لوں گی۔ آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ میں آپ کو اپنے گھر میں کیوں لائی۔ بات دراصل یہ ہے کہ میرے بچپن میں میرے والد جو لارڈ تھے ان کے پاس ایک نجومی آیا اور اس نے میرے بارے میں یہ بتایا کہ اس کی کامیاب شادی ایک ایسے نوجوان سے ہوگی جو اس سال میں ، سردیوں کی اس تاریخ کی شام ٹیمز کی دیوار پر اکیلا بیٹھا ہوگا۔ آج کی تاریخ میرے لئے اہم تھی۔ میں گاڑی میں نکلی اور میں ٹیمز کے دونوں کناروں پر گھومی پھر ایک جگہ مجھے آپ بیٹھے نظر آئے۔ میں آپ کو یہاں لے آئی۔ اب بتائیے آپ میرے ساتھ شادی پر رضامند ہیں۔ نوجوان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا”کیوں نہیں“۔
دوشیزہ نے کہا”شکریہ“ بس اب ہم اگلی اتوار چرچ چل کر شادی کر لیں گے۔ کل سے میں تیاریاں کرتی ہوں۔ آپ اب آرام کیجئے“۔ دوشیزہ کمرے سے نکلی تو نوجوان نے دونوں ہاتھ پھیلا کر ایک نعرہ مستانہ بلند کیا اور پیچھے کی طرف پلنگ پر گر گیا اور اس کے ساتھ ہی”غڑاپ“ کی زوردارآواز آئی اور نوجوان دریائے ٹیمز میں غوطے لگا رہا تھا۔
ٹیمز کی دیوار پر اکثر لوگ بیٹھتے ہیں۔ ایک رات اس دیوار پر ایک شخص بیٹھا تھا۔ جو وجیہ اور خوش شکل تھا، وہ سوچوں میں گم تھا۔ اتنے میں سڑک پر ایک لمبی کار آکر رُکی۔ اس میں سے ایک باوردی ڈرائیور اُترا اور اس شخص کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد بولا ”مادام آپ کو بلارہی ہیں“۔ شخص نے ڈرائیور کی طرف دیکھا اور بولا”کون مادام؟“ ڈرائیور بولا ”وہ کار میں بیٹھی ہیں اقتدار کی دیوی“۔ وہ شخص کار کی طرف گیا اور اس نے دیکھا کار میں ایک باوقار خاتون بیٹھی ہیں۔ انہوں نے ساتھ چلنے کو کہا اور وہ شخص گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی ایک وِلا میں گئی اور پھر کھانے کی میز پر وہ خاتون جن کا تعارف ”اقتدار کی دیوی“کے نام سے کرایا گیا تھا اس شخص سے کہنے لگی” تم خوش قسمت ہو کہ میں یعنی اقتدار کی دیوی تم پر مہربان ہوگئی ہوں۔ مجھے نجومیوں نے بتایا تھا کہ اس سال کی اس تاریخ کو ٹیمز کی دیوار پر ایک شخص بیٹھا ہوگا، وہ اپنے ملک کا مستقبل کا وزیراعظم ہوگا۔ اس سے کہو کہ ٹیمز پر بیٹھے کیا سوچ رہے ہو، جاؤ اپنے ملک کے دریا کے کنارے جلسہ کرو اور اپنا ملک فتح کرکے سب کو پھینٹی لگا کر وزیر اعظم بن جاؤ“۔ وہ شخص حیرت سے خاتون کی باتیں سنتا رہا اور پھر کھانے کے بعد اس شخص کو اس کے گھر کے لئے رُخصت کیا گیا۔ دوسرے دن وہ شخص وطن روانہ ہوگیا۔ وہاں اس نے جلسہ کیا۔ کامیابی نے اس کا دل بڑھا دیا۔ اقتدار کی دیوی کا چہرہ نظروں میں گھومتا رہا۔ وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ وزیراعظم کا عہدہ اس سے چند دن کے فاصلے پر تھا۔ پھر 11 مئی کا دن آگیا اور ٹیمز دریا کے پانیوں میں ”غڑاپ“ کی آواز آئی۔
ٹیمز کی دریا کی دیوار پر ایک رات ایک نورانی شخصیت جلوہ افروز تھی۔ یہ شخصیت اپنے مخصوص عمامے کے ساتھ اکیلی بیٹھی دریا کے کنارے چلتے ٹریفک کو دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک کار وہاں آکر رُکی۔ اس میں سے ایک ڈرائیور اترا اور نورانی شخصیت کے پاس آیا اور بولا ”محترم !آپ کو باباجی بلا رہے ہیں“۔ نورانی شخصیت نے ایک لمحے کو کار کی طرف دیکھا وہاں واقعی باباجی تھے۔ یہ شخصیت چلتی ہوئی گاڑی کے پاس گئی۔ باباجی نے کہا”آیئے میرے ساتھ بیٹھئے“۔ نورانی شخصیت گاڑی میں بیٹھ گئی۔کافی دیر کے بعد کار ایک وِلا میں داخل ہوئی اور پھر وہ لوگ گاڑی سے اُتر کر سیدھے کھانے کی میز پر گئے۔ میز پر کئی طرح کے کھانے اور انواع و اقسام کے حلوے رکھے تھے۔ کھانے کے بعد باباجی نے نورانی شخصیت سے کہا” آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟آپ اپنے وطن جائیں۔ وہاں انقلاب آپ کی آمد کا منتظر ہے۔ پہلے آپ وہاں کے دریا کنارے جلسہ کریں پھر لانگ مارچ کریں پھر دھرنا دیں، الیکشن کو رکوادیں۔ الیکشن مشینری کو اپنے جلوسوں کے قدموں تلے روند ڈالیں۔اس طرح موجودہ سربراہ کو5 سال کی توسیع مل جائے گی اور آپ وزیراعظم بن جائیں گے پھر آپ انقلاب لائیں گے،مبارک ہو! مبارک ہو!!، مبارک ہو!!! نورانی شخصیت اس تین بار کی مبارک باد پر جھوم اُٹھی۔ اس کے بعد اُن کو کار میں ان کی رہائش گاہ پر بھجوادیا گیا۔ دوسرے دن وہ نورانی شخصیت اپنے ملک کی طرف رواں دواں تھی۔ ان کا جلسہ کامیاب ہوا، لانگ مارچ کامیاب رہا، دھرنا کامیاب ہوا پھر وہ آرام سے بیٹھ کر اپنی تاجپوشی کا انتظار کرتے رہے کہ دریائے ٹیمز میں ’غڑاپ‘ کی آواز سنائی دی…۔
ٹیمز کی دیوار پر ایک کثرتی بدن والا ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا۔ اس کے بدن کی اکڑ بتاتی تھی کہ اس پر کافی عرصے کلف والی وردی چڑھائی جاتی رہی ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی، دھند تھی اور ٹیمز کے کنارے ٹیمپل اسٹیشن کے پاس والی سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھا۔ اتنے میں ایک لیموزین آکر رُکی اور اس میں سے ایک باوردی ڈرائیور آیا اور اس نے اس شخص کو سیلوٹ کیا پھر بولا ”آپ کو لارڈ پاور بلارہے ہیں“۔ اس شخص نے گاڑی کی طرف دیکھا تو ایک باوقار شخص کو بیٹھا پایا۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ گاڑی کی طرف چل دیا۔ لارڈ پاور نے اس کو ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ ڈرائیور نے دوسرا دروازہ کھولا اور وہ شخص گاڑی میں بیٹھ گیا۔
گاڑی ایک محل نما گھر میں داخل ہوئی۔ ملازمین کی فوج گاڑی کی طرف بڑھی اور اپنے ساتھ اندر لے گئی۔ خوبصورت محل میں بیٹھ کر مشروبات کے ساتھ گفتگو شروع ہوئی۔لارڈ پاور نے کہا”آپ ٹیمز کے کنارے کیا کررہے تھے؟میں حساب کتاب میں دیکھتا ہوں کہ آپ کا مقام وہی ہے جہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔ آپ کا وطن اور آپ کے ہم وطن آپ کے حکم کے لئے ترس رہے ہیں۔ آپ فوراً واپس جائیں اور حکمرانی کیجئے۔ آپ اپنے وطن میں ساحلی شہر میں اتریں گے تو30لاکھ عوام آپ کا استقبال کریں گے پھر دوسرے شہر میں جائیں گے تو 50لاکھ عوام سڑکوں پر آپ کے نعرے لگا رہے ہوں گے۔ پھر دارالحکومت میں پہنچیں گے تو 80لاکھ عوام وہاں موجود ہوں گے۔ آپ الیکشن میں حصہ لیں گے تو سوفیصد نشستیں آپ کی اور آپ کے حمایت یافتہ لوگوں کی ہوں گی۔ جنرل آپ کو سلیوٹ کر رہے ہوں گے، انتظامیہ آپ کی تابعدار ہوگی۔ بس آپ ہوں گے اور آپ کا حکم ہوگا۔ جائیے وطن جائیے، خوب کھائیے، خوب پیجئے۔ دریائے ٹیمز کے کنارے آپ کی جگہ نہیں ہے۔ لارڈ پاور کی باتیں گونج رہی تھیں کہ 11مئی کو ٹیمز کے پانیوں میں ”غڑاپ “ کی آواز آئی!
تازہ ترین