• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکنالوجی کے میدان کو وسیع تر کرنےکے لیے سائنس داں حیران کن چیزیں ایجاد کررہے ہیں ،جن کو دیکھ کر نہ صرف انسانی عقل دنگ رہ جائے بلکہ ذہن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ انوکھی چیز ہے کیا ۔ان انقلابی ایجادات میں سے چند کے بارے میں ذیل میں بتا یا جارہا ہے ۔

چہل قدمی کرنے والے روبوٹس

ماضی میں روبوٹس کو انسانی کنٹرول والے ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیاجاتا تھا۔ اب امریکی فوج نے آزادانہ گھومنے پھرنے والے روبوٹس تیار کیے ہیں، تا کہ بغیرکسی انسانی کنٹرول کے یہ روبوٹ حساس مقامات کی حفاظت پر مامور کیے جاسکیں۔ ان کو Mobile Detection Assessment Response System (MDARS) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ روبوٹ ایک طے شدہ علاقے میں اپنی مرضی سے گھومتے پھرتے ہیں۔ان کے اندر Thermal Imaging Devices، ویڈیو کیمرے، اور رکاوٹوں کا سراغ لگانے والے لیزر لگے ہیں، تا کہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا بروقت سراغ لگا یا جاسکے۔ 

ان میں آنکھوں کو چندھیانے والی تیز اسٹروب لائٹس بھی نصب کی گئیں ہیں ۔ان کے اندر ریڈیوفریکونسی کے حامل شناختی ٹیگ کے ذریعے ڈبوں پر لگے لیبل پڑھنے کی صلاحیت بھی ہے ،تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی شے غائب نہیں ہے۔جنرل ڈائنامکس روبوٹکس سسٹم، ویسٹ منسٹر، میری لینڈ امریکا میں تیار کیے گئے روبوٹس کو ایسی گاڑی کی شکل میں نصب کیا گیا ہے ،جس میں مختلف سینسرز لگے ہیں، تا کہ مداخلت کاروں کا پتا لگایا جا سکے۔ 

ان کو امریکی نیشنل سیکورٹی انتظامیہ کے ایک علاقے(NNSA) Nevada National Security کے مقام پر تعینات کیا گیا ہے، تا کہ انتہائی حساس علاقوں میں جہاں سیکورٹی کے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا ًنیوکلیائی مواد اورنیوکلیائی فضلہ جمع کرنے کی جگہ کی حفاظت کے لیے ان کو مامور کیا جا سکے۔ یہ روبوٹ خصوصی حفاظتی علاقوں (اسپیشل سیکورٹی زون) کی حفاظت پر مامور ہیں۔

چمکدار درخت۔ اسٹریٹ لائٹس کی طرح روشن

تائیوان کے سائنسدانوںنے مشاہدہ کیا ہے کہ اگر درختوں کا سنہری نینو ذرّات سے کیمیائی عمل کیا جاتا تو یہ سرخی مائل روشنی خارج کرتے ہیں۔ Dr.Yen-Husm Su کا کہنا ہے کہ جب سنہری نینو ذرّات پودے کے پتوں میں نفوذ کر جاتے ہیںتو پودے میں موجود کلوروفل سرخی مائل روشنی پیداکرتا ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ یہ پیش رفت درختوں کوبطور اسٹریٹ لائٹس استعمال کرنے میں معاون ثابت ہو گی، کیوںکہ رات کو درخت کی پتیاں چمکتی ہیں اور ایک جادوئی رنگ پیدا کرتی ہیں۔ 

سنہری نینو ذرّات کے مزید اطلاقات بھی سامنے آئے ہیں۔ مثلاً غیرزہریلی خوشبوئیں اور روشنی خارج کرنے والے نینوتار جو کہ LED کی طرح روشنی پیدا کرتے ہیں۔ ان کی مدد سے بارش یا دھند کی صورت میں بھی گاڑی آسانی سے ڈرائیو کی جا سکے گی، چناں چہ یہ مشکل حالات میں بھی ڈرائیونگ کو آسان بنا دیں گے۔

سڑکوں پر چلنے والی ٹرینیں… وائرلیس کاروں کے قافلے

موٹرویز پر ہونے والے حادثات کی اکثر وجہ تیز رفتار ہوتی ہے۔ اس جدید دور میں اس مسئلے کا حل بھی تلاش کر لیا گیا ہے، اس میں گاڑیوں کو بغیر تار کے ایک دوسرے سے اس طرح منسلک کر دیا جائے گا ،جس میں وہ ٹرین کی طرح ایک ساتھ چلیں گی۔اورگاڑی کو کنٹرول انسان نہیں بلکہ کمپیوٹر کررہا ہو گا۔یہ گاڑیاں نیم خود مختار پلاٹون کی طرح سفر کررہی ہوں گی ۔ اس سے روڈ سیفٹی کے حوالے سے کافی فوائد حاصل ہوں گے ۔ 

علاوہ ازیں ایندھن کی بھی بچت ہو گی اور سڑک کے اژدھام سے بھی بچا جا سکے گا۔ موٹروے پر آنے والی کار اس قافلے میں شمولیت اختیار کر سکتی ہے۔ اور پھر اپنا مطلوبہ فاصلے طے کر کے اس سے باہر نکل سکتی ہے، اس نظام کی ایک نجی کمپنی نے سوئڈن میں آزمائش کی ہے جو کہ Safe Road Train For the Enviornment (SARTRE) منصوبے کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ کاروں میںکیمرے اور سینسرز نصب ہیں جو کہ آنے والی گاڑیوں کو ایک دوسرے سے قریب آنے سے محفوظ رکھتے ہیں یا لائن سے باہر جانے والی گاڑیوں کو قطار میں رکھتے ہیں۔

ریفریجریٹر جو بغیر بجلی کے کئی دن تک ٹھنڈا رہ سکتا ہے

ایک نجی کمپنی نے ایسا ریفریجریٹر تیار کیا ہے جو بجلی کے بغیر بھی کئی دن تک ٹھنڈا رہ سکتا ہے ۔اور اس کے اندر کا درجہ ٔ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رہتا ہے۔ماہرین اس میں Phase Change Material کا استعمال کیا گیا ہے ،جو کہ توانائی کو ذخیرہ کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کو خارج کر دیتا ہے۔Phase Change مواد توانائی کی بڑی مقدار کو ذخیرہ کرتے ہیں ۔

اس کی وجہ ان کے فیوژن Fusion سے حاصل ہونے والا بلند درجۂ حرارت ہے، ان کو جب ٹھوس میں تبدیل کیا جاتا ہے تو یہ توانائی ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں اور اس کا اخراج بھی کر سکتے ہیں۔ یہ مخفی ذخیرہ حرارت Phase Chang ( ٹھوس ، مائع اورگیس) کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔

سوچ سے چلنے والی کاریں

ٹیکنالوجی کی اس حیرت انگیز دنیا میں انوکھی ایجادات منظر عام پر آرہی ہیں ۔برلن میں قائم freie university کے محققین اور ان کی ٹیم نے ایسی گاڑی تیار کی ہے ،جس کو سوچ سے مکمل طور پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ اس کار میں ڈرائیور ایک خصوصی طور پر بنا ہوا ہیڈ سیٹ پہنتا ہے ،جس میں 16 EEG (electroencephalographic) سینسرز لگے ہیں۔ نظام (جس کو درست طور پر Brain Driver کہا جاتا ہے) دماغ سے جاری ہونے والے احکامات کا سراغ لگا کر کار کے کمپیوٹر کنٹرول کو منتقل کر دیتا ہے۔ اس طرح اسٹیرنگ، رفتار اور بریکنگ کا نظام مستقل کنٹرول ہوتا رہتا ہے۔ 

دماغ سے برقی ربط کی پیمائش کو Electroencephalography یا EEG کہاجاتا ہے۔ یہ ایک noninvasive تیکنیک ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ میںکوئی بھی شے داخل نہیں کی جاتی بلکہ استعمال کرنے والے کے سر پر الیکٹروڈ رکھ دیے جاتے ہیں۔ڈرائیور کو مختصر عرصے کی ایک سافٹ ویئر ٹول کٹ کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے ذریعے وہ محض اپنے سوچنے کے انداز کو تبدیل کر کے کمپیوٹر اسکرین پر چلنے والے Cube کو حرکت دیتا ہے۔ 

اس حرکت کو Brain Driver اس وقت جان لیتا ہے۔ جب گاڑی کو چلانا مقصود ہوتا ہے اور اس کو گاڑی کے کنٹرول سسٹم کو منتقل کر دیتا ہے۔سوچ کے ذریعے کمپیوٹرکو کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ آسٹریلیا کی کمپنی نے 2007ء میں جرمنی میں ہونے والی ایک تجارتی نمائش میں کیا تھا ۔اس مظاہرے میں چلانے والے نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی ۔جو کہ دماغ میں پیدا ہونے والے برقی وولٹیج میں معمولی سی تبدیلی کی شناخت کر لیتے تھے۔ بعد ازاں اس تبدیلی کا تجزیہ کمپیوٹر پر ہوتا تھا جو یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ اس پیغام کا کیا مطلب ہے ، اور پیغام کو command میںتبدیل کر کے کمپیوٹر کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔

بحری جہازوں کی معاونت کے لیے ........دیوہیکل پتنگیں

جرمنی کی کمپنی sky sail نےدیو ہیکل پتنگیں تیار کی ہیں ،جن کو بحری جہازپر باند ھا جائے گا ۔ا س کے ذریعے بحری جہاز سمندری ہوا کی طاقت سے آگے بڑھیں گے اور ایندھن کی بچت ہو گی۔ اس ٹیکنالوجی کا پہلی دفعہ مظاہرہ 2008 ء میں کیا گیا جب 433 فیٹ کی ایک کشتی MS Beluga Skysail پر ایک بڑی پتنگ باندھی گئی ۔اب اسی طر ح کی ایک پتنگ cargillسمندری مواصلات کی کمپنی کے 30,000ٹن وزنی جہاز پرلگائی جارہی ہے۔جوکہ 100-400 میٹر بلندی پر اُڑتے ہوئے جہاز کو کھینچے گی۔

اس کو مکمل طور پر کمپیوٹر سے کنٹرول کیا جائے گا ۔ پتنگ کو کھولنے اور واپس بند کرنے کا نظام سمندری جہاز میں نصب میکانی سسٹم کے ذریعے انجام دیا جائے گا جو کہ Winch-equipped ٹیلی اسکوپ کے حامل ٹاور پر مشتمل ہے اور یہ جہاز کے بادبان کی گانٹھ پر نصب کیا جاتا ہے۔اس دلچسپ ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے35فی صدایندھن کی بچت کی جائے گی۔ اس نظام کے روایتی کشتیوں کے مقابلے میں5 سے 25 فی صد زیادہ طاقت ور ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔

انتہائی حساس مصنوعی جلد… روبوٹس کے لیے

اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے سائنس داں Zhenan Baoنے ایک انتہائی حساس جلد تیار کی ہے، جس میں علیحدہ سے لچکدار ٹرانسسٹرز بھی لگائے گئے ہیں ، یہ جلد اس قدر حساس ہے کہ تتلی کا وزن بھی محسوس کرلیتی ہے۔اس میں موجود ربر کی تہہ انتہائی لچکدار ہے اور اس کو اوپر سے خوردبینی اہرام کی شکل میں بنایا گیا ہے، جو کہ اس پر پڑنے والے دباؤکو اس کے نیچے موجود ربر کی دوسری تہہ کی طرف منتقل کردیتی ہے۔ ان انتہائی باریک اہراموں کی تعداد ایک مربع سینٹی میٹر میں چند سو ہزار سے 25ملین تک ہو سکتی ہے، جس کا انحصار مطلوبہ حساسیت پر ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ دو متوازی الیکٹروڈز کے درمیان سینڈوچ ہوتا ہے۔ 

لہٰذا یہ جلد پرپڑنے والے دباؤ میں تبدیلی کو برقی سگنل میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے دباؤ اور اچھال کو فوراً محسوس کر لیتا ہے۔ اس کو شمسی سیل سے طاقت فراہم کی جاتی ہے ،تاہم بیٹری کے ذریعے بھی طاقت فراہم کی جاسکتی ہے۔اس کی ساخت میں ترمیم کرکے اس کو دھماکہ خیز مواد کی شناخت اور کسی مریض کو صرف ہاتھ لگا کراس کی طبی حالت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

نمک کے ذرّے کے برابر کیمرے

جرمنی کے سائنس دانوں نے انتہائی مختصر کیمرا تیار کیا ہے، جس کی جسامت نمک کے ذرّے کے برابر ہے۔ یہ چھوٹا کیمرہ انسان کے اندرونی اعضاء میں لگایا جا سکتا ہے۔ اور یہ اس قدر سستا ہو گا کہ ہر استعمال کے بعد صاف ستھرا کرنے کے بجائے اس کو پھینک کر دوسرا کیمرہ استعمال کیا جا سکے گا۔ ان کیمروں کوجنہیں Endoscopes کا نام دیا گیا ہے عام طور پر ایسے کیمروں کو فائبر آپٹکس تاروں کے ذریعے استعمال کیا جاتاہے لیکن ان کیمروں کو عام بجلی کے تاروں کے ذریعے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ نئی ایجاد بہت جلد مارکیٹ میں دستیاب ہوگی ۔

جان بچانے کے لیے روبوٹس

moni نامی روبوٹ کو fukushima daiichi نیو کلیئر پاور پلانٹ پر لگا یا گیا ہے ۔ یہ تابکارشعاعوں کی اس سطح پر کام کر سکتاہے جہاں انسان زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ روبوٹ جاپانی نیوکلیئر سیفٹی ٹیکنالوجی سینٹر میں 1999ء میں Tokaimura نیوکلیئر پاور پلانٹ پر ہونے والے حادثے کے بعدتیار کیا گیا۔ 

اس روبوٹ میں تابکار شعاعوں کی شناخت کرنے والا آلہ، 3D کیمرہ اور درجۂ حرارت اور نمی کو شناخت کرنے والے آلات لگائے گئے ہیں۔ یہ نمونہ جات جمع کر سکتے ہیں اور اپنے خصوصی ہاتھوں کی مدد سے رکاوٹوں کو دور کر سکتے ہیں۔ اس کا قد تقریباً 1.5میٹر ہے۔یہ کیٹر پلر کی طرح جسم کو گول کرکے حرکت کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین