ڈاکٹر عذرا جمال رفیق
عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال دنیا بَھر میں8مئی کو’’ ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے‘‘ ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔امسال کا تھیم "Addressing Health Inequalities Across the Global Thalassaemia Community"ہے۔ تھیلیسیمیا کی عالمی برادری سے صحت کی عدم مساوات کا خاتمہ ۔تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے،جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔عام طور پر بچّوں کے حقوق کی ابتدا دورانِ حمل یااُن کی پیدایش کے بعدہوتی ہے، لیکن اصولاً بچّوں کے حقوق کا آغاز وہاں سے ہونا چاہیے، جب ایک لڑکی، لڑکے کی شادی کا ارادہ کیا جائے۔
اس ضمن میں جہاں والدین کی کئی پہلوؤں پر نظر رہتی ہے، وہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہونے والے دولھا، دلہن میں سےکوئی ایک تھیلیسیمیا مائنر کا شکار تونہیں ہے،تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں تھیلیسیمیا جیسی مہلک بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ تھیلیسیمیا یونانی لفظ Thallus سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ’’سمندر‘‘ ہے۔اور ایمیا کے معنی ’’خون‘‘ کے ہیں۔ یہ بیماری سب سے پہلے یونان میں تشخیص ہوئی، جو بحیرہ ٔقلزم کے کنارے واقع ہے۔اب یہ مرض پوری دُنیا میں عام ہوچُکا ہے۔ واضح رہے، وہ علاقے جہاں تھیلیسیمیا بہت عام ہے، وہ تھیلیسیمیا بیلٹ (thalassemia belt) کہلاتے ہیں۔ یہ مغرب میں یونان سے شروع ہوکر افریقا، مشرقِ وسطیٰ، ایران، پاکستان اور بھارت سے گزرتے ہوئے مشرق بعید، چین اور انڈونیشیا تک کا علاقہ ہے۔
تھیلیسیمیا متعدّی مرض ہے، نہ اس سے بچاؤ کا کوئی حفاظتی ٹیکہ دستیاب ہے۔یہ خون کا عارضہ ہے، جس میں مبتلا بچّے کو تاعُمر بار بار خون لگوانے کی ضرورت پیش آتی ہےاوربروقت خون نہ ملنے کی صُورت میں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔پاکستان میں تھیلیسیمیا کے مصدّقہ اعداد وشمار دستیاب نہیں، مگرایک محتاط اندازے کے مطابق 5سال قبل بیٹا تھیلسیمیا جین کی شرح 6 فی صد تھی،جب کہ آبادی میں اضافے کے ساتھِ اس شرح میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2025ء میں آبادی 25 کروڑ تک پہنچ جائے گی اور بیٹا تھیلسیمیاجین سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ ہوجائے گی۔
جن خاندانوں میں بیٹا تھیلیسیمیا پایا جاتا ہے، اُن میں تقریباً15 یا17 افراد تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہیں۔ تھیلیسیمیا کو نوعیت کے اعتبا رسے دو اقسام مائنر اور میجرمیں منقسم کیا گیاہیں۔تھیلیسیمیا مائنر کے مریضوں کو علاج کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ اس مرض کے ان کی زندگی پر کچھ خاص اثرات مرتّب نہیں ہوتے۔ البتہ متاثرہ افراد،خصوصاًحاملہ خواتین کو فولک ایسڈ کااستعمال کرنا چاہیے۔ تھیلیسیمیا مائنر سے متاثرہ افراد جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہوتے ہیں۔ ان کی نشوونما اور اوسط عُمر بھی نارمل ہوتی ہے۔ اِس لیے انھیں اِس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اُن کے جین میں کوئی نقص ہے اور یہی لاعلمی شادی کے بعد اُن کے یہاں جنم لینے والے بچّوں کے لیے خطرہ بن جاتی ہے،جو تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوسکتے ہیں۔
تھیلسیمیا میجر ہی در اصل تھیلیسیمیا کی بیماری ہے،کیوں کہ اس سے متاثرہ بچّوں میں خون نہیں بنتا،اس لیےانہیں تقریباً ہر 15دِن یا ایک مہینے میںخون کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہربار خون لگوانے کے بعد خون کے سُرخ خلیات میں ٹوٹ پھوٹ اور ہیموگلوبن میں موجود فولاد کے اخراج سے خون میں فولادکی مقدار بڑھ جاتی ہے،جو جسم کے مختلف اعضاء میں جمع ہو کر اُن کی کارکردگی متاثر کردیتی ہے۔ خون میںآئرن کی مقدار نارمل رکھنے کے لیے مخصوص ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں، جن کے اپنے منفی اثرات ہوتے ہیں۔تھیلیسیمیا کی تشخیص کے پہلے مرحلے میں سی بی سی ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔ اگر تھیلیسیمیا کا شک ہو، تو پھر حتمی تشخیص کے لیے ہیموگلوبن الیکٹروفوریسزکروایا جاتا ہے۔
اگر والدین یا دونوں میں سےکوئی ایک فریق تھیلیسیمیا کا شکار ہو، تو بچّے کی پیدایش کے 8 ماہ بعد نومولود کا یہ ٹیسٹ کروالینا چاہیے۔ واضح رہے، یہ ٹیسٹ ایک ہی بارکروایا جاتا ہے کہ اس کے نتائج میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں، یہ ٹیسٹ خون کی کمی کی دیگر وجوہ جاننے اور خون لگوانے سے قبل بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ اگر ایمرجینسی کی صُورت میں یہ ٹیسٹ کروائے بغیر خون لگوانا پڑجائے تو پھر3سے 4ماہ بعدیہ ٹیسٹ لازماًکروالیں۔ ہیموگلوبن بھی تین طرح کے ہیں۔ ایچ بی اے، ایچ بی ٹو اور ایچ بی ایف۔ تھیلیسیمیا میجر میں ایچ بی ایف (HbF) بہت بڑھ جاتا ہے،جب کہ تھیلسیمیا مائنر میں HbA2 معمولی سا بڑھتا ہے۔
تھیلیسیمیا میجر کا مکمل علاج بون میروٹرانس پلانٹ ہے، جس کی سہولت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز،کراچی میں دستیاب ہے، مگر ہر فرد اس منہگے ترین علاج کا متحمل ہوسکتا ہے، نہ ہر بچّے کے لیے یہ طریقۂ علاج مناسب ہے۔ ایک اورطریقۂ علاج میں ایک مخصوص دوا استعمال کروائی جاتی ہے،جس کی بدولت خون کے صحت مند سُرخ خلیے بننا شروع ہو جاتے اور خون لگوانے کی ضرورت پیش نہیں آتی، مگر یہ طریقۂ علاج بھی ہر بچّے کے لیے مفید نہیں۔یہ طریقۂ علاج کن بچّوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے، اس کا فیصلہ ایک ہیموٹالوجسٹ اور ماہرِ امراضِ اطفال ہی کرسکتے ہیں۔
تھیلیسیمیا کے مرض کی اگلی نسلوں میں منتقلی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مائنر تھیلیسیمیا کے شکار افراد آپس میں شادی سے گریز کریں، شادی سے قبل تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ لازماً کروایا جائے، اگر دو تھیلیسیمیا مائنر کی آپس میں شادی ہوچُکی ہے اورحمل ٹھہر جائے، تو حمل کے دسویں ہفتے میں سی وی سی(Chorionic villus sampling) ٹیسٹ لازماًکروایا جائے۔ اگر اِس ٹیسٹ کے ذریعے ہونے والے بچّے میں تھیلسیمیا میجر کی تشخیص ہوجائے، تو حمل ضایع کروادیں (اس ضمن میں فتویٰ بھی موجود ہے) کہ جنم لینے والے بچّے کو عُمر بَھر شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(مضمون نگار ماہرِ امراضِ اطفال ہیں اور سیلانی تھیلیسیمیا کیئر سینٹر، زیڈ ایم ٹی کلینکس نیٹ ورک میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ نیز، پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن اورپاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی رکن بھی ہیں)