• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے پیارے قائدِ اعظم! مجھے یقین ہے کہ آپ کی قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی اور آپ عالمِ برزخ کے اعلیٰ ترین مقامات میں سے کسی ایک مقام پر اپنے ہی جیسے بے شمار پیاروں کے ساتھ اُس گھڑی کے بے چینی سے منتظر ہوں گے جب حشر بپا ہونے کا صور پھونکا جائے گا…مجھے اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ ”حکمی شہادت “کے درجے پر فائز ہیں اور یقیناً اپنا رزق پارہے ہیں لیکن ہمیں اِس کا شعور نہیں…”کسمپرسی“ پر تو یوں ہی الزام لگادیاگیا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی جان کسمپرسی نے نہیں بلکہ ”اپنوں“ نے ہی لی تھی…میرے بے مثال رہبر! آپ مجھے نہیں جانتے لیکن میں آپ ہی کے بنائے ہوئے پاکستان میں پیدا ہوا،پلا بڑھا اور یہیں کا کھارہا ہوں، سچ پوچھیے تو آپ کے احسانات کے بوجھ تَلے دبا ایک ایسااحسان فراموش ہوں جسے آپ کے پاکستان سے زیادہ ہروقت اپنے ہونے کا یقین ہے حالانکہ پاکستان ہے تو میں ہوں ورنہ تو میں صرف ”میں“ ہی تو ہوں…اور اللہ کی اِس وسیع و عریض کائنات میں کسی ”میں“ کی کبھی گنجائش تھی اور نہ ہوگی، ہر ”میں“ کو لازم ہے کہ وہ ”ہم“ میں فنا ہواور عجز کی لہروں کے سہارے حقیقت کے ساحل تک پہنچے لہٰذامیں یہ اقرار کرتا ہوں کہ پاکستان میں آزادی کی سانس لینے والے ہر نفس کی حیات کا ثواب اللہ کے حکم کے ذریعے آپ کی روح تک بالضرور پہنچایاجاتا ہے اور 1948سے لے کر اب تلک آپ کے درجات میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے…یہ الگ بات ہے کہ کچھ کم ظرفوں کے نزدیک پاکستان آپ کا ”قصور“ اور ایک ایسی غلطی ہے جو آپ کو نہیں کرناچاہیے تھی…دراصل یہ وہ ”غلام زادے“ ہیں جن کی زبانیں آقاؤں کے تلووں کے ذائقوں کی عادی ہوگئی تھیں اور یہ اُن کے پیروں پر لگا اپنا ہی تھوک چاٹنے میں مَست رہنا چاہتے تھے مگر آپ نے اِنہیں جھنجوڑا، بازوؤں سے پکڑ کر اُنہیں اُن ہی کے قدموں پر کھڑا کیا اور پاکستان لے آئے …تب ہی سے یہ آپ کے شدید دشمن ہیں، کبھی آپ کی جدّوجہد کا تمسخر اُڑاتے ہیں تو کبھی دو قومی نظرئیے کے چہرے پر اپنی غلاظت مَلتے ہیں، اِنہیں غلامی میں جینا اچھا لگتا تھااور عزّت کی زندگی اِن کی کبھی خواہش ہی نہیں تھی…”اَنا“ کے یہ یتیم بچے مدتوں سے اپنے باپ کی تلاش میں ناکام ہیں اِسی لیے ہر ”بابا“سے نفرت کرتے ہیں اور آپ تو”بابائے قوم “ ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سے پیار کیا جائے!
مجھے یقین ہے کہ آپ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس قولِ مقدس سے ضرور آشنا ہوں گے کہ ”جس پر احسان کیا جائے اُس کے شَر سے بچو“…آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت فرما کر یہی نصیحت سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم نے بھی کی…پیارے قائد! آپ بھول تو نہیں گئے نا کہ آپ نے بھی تواپنے وجود کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتی اور ذلیل ہوتی قوم پر احسان فرمایا تھا، ہندو بنیوں اور سکھ سرداروں کے پیچھے چلنے والوں کو آپ نے نیا راستہ دکھلایا تھاپھر یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ ہمارے شر سے بچ جاتے…ہم نے ہر موڑ پرآپ کی کردار کشی کی،آپ کو زہریلے القابات سے پکارا، وضع قطع پر تنقید کی، انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا ، سنّی،شیعہ کے پیمانوں میں تراشا یہاں تک کہ آپ کو مارڈالا…او ر ا ب جب اِس پر بھی جی نہیں بھراتوجہاں آپ نے اپنے آخری دو ماہ گزارے تھے اُس زیارت ہی کو تباہ کرڈالا…ہمارے شر کی یہ انتہانہیں تو اور کیا ہے …شاید کسی پر احسان کرکے اُس کے شر سے بچنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اُس پر احسان کیا ہی کیوں جارہا ہے کہ جس پر اللہ نے کرم نہیں فرمایا… لیکن جب اللہ ہی کے حکم سے اُس کا کوئی بندہ کسی پر احسان کرتا ہے تو اللہ چاہتا ہے کہ اُس کا یہ نیک بندہ دیکھ لے کہ اُ س کے رب نے کبھی(معاذ اللہ) غلط نہیں کیا،پروردگار نیکیوں کی بہاریں بھی دینا چاہتا ہے اور انجام سے آگاہی بھی چنانچہ احسان کرنے کی بنا پر نیکیاں عطا فرماتا ہے اور منکرِ احسان کے ضررکے سبب گناہ معاف فرماتا ہے یعنی بیک وقت ہمیں تین انعامات ملتے ہیں…پہلا یہ ”پختہ یقین“ کہ اللہ سے بہتر اُس کے بندوں کو کوئی جان سکتا ہے اور نہ ہی اُس سے بڑھ کر کوئی اُن سے پیار کرسکتا ہے ، اگر اُسی نے اُن کی حالت زار پر رحم نہیں فرمایا ہے تو بے شک اِس میں اُسی کی کوئی حکمت پوشیدہ ہے …دوسرا ”اجرو ثواب“ کہ احسان کرنا ایک محبوب ترین عمل ہے اور اللہ نہیں چاہتا کہ اُس کے بندے اِس عمل سے رک جائیں چنانچہ وہ یہ جانتے ہوئے کہ اُس کے بندے کے فلاں بندے یا بندوں پر احسان کے نتائج تباہ کن ہوں گے وہ غالب حکمت کے ذریعے اُسے پایہٴ تکمیل تک پہنچاتا ہے تاکہ احسان کے اِس عمل پر اُسے اجر،رحمتوں اور نیکیوں کے سائے عطا کیے جائیں…اور تیسرا ”گناہوں میں تخفیف“ کہ چونکہ وہ سب کچھ جانتاہے ،سب اُسی کا علم ہے ،وہی عالم ہے ، وہی بصیر ہے ،وہی خبیر ہے لہٰذا احسان کے مزے لوٹنے والا جب اپنی اوقات پر اُترتا ہے اور احسان کرنے والے کو درد،ٹھیس،دکھ اور تکلیف پہنچاتا ہے تو اُسی لمحے محسن کے نامہٴ اعمال میں لکھے ہوئے گناہوں کی سیاہی دھندلا جاتی ہے یہاں تک کہ گناہ تیزی سے مٹتے چلے جاتے ہیں جبکہ احسان فراموش کے بوجھ میں مزید اضافہ کردیاجاتا ہے، اتنا اضافہ کہ وہ بروزِ حشر گھسٹتا ہوا اپنے رب کی بارگاہ میں حساب کتاب کیلئے حاضر ہوگا…دنیا میں ظاہری طور پرتو یو ں لگتا ہے کہ ناشکرے اور احسان ناشناس کامیاب ہوگئے مگر درحقیقت اُن سے زیادہ خسارے میں کوئی اور نہیں ہوتا…اور یہی ہماری حالت ہے…ہم نے آپ کوبہت رنج دیا ہے ، آپ کے دیے ہوئے تحفے کی قدر نہیں کی،ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کو فخر جانا، پاکستانی کے بجائے ہمیشہ لسانی شناخت پر سینے چوڑے کیے ،قربانیوں کو جھٹلایا،اکابرین کی توہین کی،تقسیمِ ہند کو غلطی قرار دیا،مشرقی پاکستان کو کاٹ کر پھینک دیا اور اب باقی ماندہ بچے کھچے پاکستان کو فرقہ واریت،نفرت،انتقام اور غداری کے ناخنوں سے نوچ رہے ہیں…بے شک ہم احسان فراموش ہیں، بلاشبہ ہم سوارتھی(مفاد پرست) ہیں…اپنی رہائش گاہوں،محلوں اور قلعے نما مراکز کی حفاظت کے لئے تو ہم لاکھوں روپے ماہانہ پر محافظوں کی فوجِ ظفر موج لا کھڑی کرتے ہیں لیکن آپ نے جہاں اپنے آخری ایام گزارے وہاں صرف ایک غیر تربیت یافتہ ، غیر مسلح چوکی دار اور صرف ایک پولیس اہل کار تعینات کر کے ہم نے دنیا کو یہ بتلادیاہے کہ ہماری نگاہوں میں آپ کی وقعت کیاہے …پولیس اہل کار تو اپنا فرض نبھاتے اور آخری وقت میں آپ کی زیرِاستعمال اشیا کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھالیکن اُن کی جان ابھی تک نہیں نکلی کہ جن کے کروفر میں جان بھی آپ ہی کے سبب ہے…میرے عظیم قائد! خدانخواستہ اگر یہی حملہ رائے ونڈ،منصورہ،بلاول ہاؤس،ڈیرہ اسماعیل خان،نائن زیرو یا چارسدہ میں ہوتا توپاکستان کے گلی کوچوں میں آگ لگی ہوتی،اِن مبارک رہائش گاہوں کے تقدس کی پامالی پر سینہ کوبی کرتے ہوئے لاکھوں افراد سے آپ کے بنائے ہوئے آزاد وطن کی غلام راہیں بھر جاتیں،ہڑتال،الٹی میٹم اور پیمانہٴ صبر کے لبریز ہونے کی سرخیاں اپنے دوام کے لیے لہو کی سرخی کی متقاضی ہوتیں…مگریہ آپ کی رہائش گاہ تھی…یہ زیارت ہے قائد اعظم! اور زیار ت کے منکر تو چاہتے ہی نہیں کہ زیارت کی جائے…ہم محسن کشوں نے بتلادیا ہے کہ ہم نالی کے وہ کیڑے ہیں جنہیں خوشبوؤں سے مہکتے بام و در راس نہیں آتے،نہ جانے اب آنے والی نسلیں جب اپنی نصابی کتب میں زیارت کی تصویر پر انگلی رکھ کر ہم سے یہ پوچھیں گی کہ ”یہ کون سی جگہ ہے ؟“ تو ہم کیا جواب دیں گے؟یہ کہ یہاں آپ نے اپنی حیات کے آخری دن گزارے تھے یا پھر یہ کہ آخری دنوں میں بانی پاکستان یہاں رہا کرتے تھے اور پاکستانیوں نے اِسی سبب اِس مقام پر بموں سے حملہ کیا تھاکہ قائد اعظم کی جرأت کیسے ہوئی جو اُنہوں نے یہاں سانسیں لیں،اب اِس کے قیام کا کوئی جواز نہیں،اُڑادو…!!!
تازہ ترین