• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان پونے 3سال سے ہر محاذ پر شکست سے دوچار دکھائی دے رہے ہیں ،سب سے پہلے انہیں اپنے لاڈلے وزیر خزانہ اسد عمر جس کے سہارے وہ قوم کو آئی ایم ایف سے ہمیشہ ہمیشہ نجات دلوانے کا دعویٰ کرتے رہے ،ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اسد عمر کو فارغ کرکے آئی ایم ایف کی سیڑھیوں پر چڑھنا پڑا ‘بدترین شرائط پر۔پھر فوراً ہی من مانی شرائط نے اثر دکھانا شروع کر دیا یعنی بجلی مہنگی،گیس کا بحران ،ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوںمیں ہفتہ وارکبھی ماہوار اضافہ قوم کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے روز مرہ کی اشیاء دالیں، چینی ،آٹا ،دودھ ،شکر مارکیٹ میں مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ ناپید بھی ہو نا شروع ہو گئیں ۔ آٹا غائب ،چینی غائب پھر ہرچیز کی قیمتوں کوپی ٹی آئی میں ہی موجودمافیا نے آسمان کی طرف اچھال دیا۔عوام جو دھرنوں کے وعدے وعیدوں میں بہہ گئے تھے اور عمران خان کے ماضی سے متاثر تھے اور بَلّے کو ووٹ دیکر کامیاب کروانے میںپیش پیش تھے ۔ یکا یک ان کے خوابوں پر بجلی کوند گئی اور وہ ایک ایک کر کے چکا چوند ہو گئے ۔پھر پوری دنیا پر کورونا کا حملہ ہوا ہماری حکومت کی حکمت عملی تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں تھیں کہ پاکستان کے عوام زیادہ متاثر نہ ہو ئے۔ لاک ڈائون اور اسمارٹ لاک ڈائون کی آنکھ مچولیوں سے بچے رہے۔کرپشن کے خلاف جہاد چونکہ یکطرفہ تھا قوم کو پسند نہیں آیا ،دوسری جماعتوں کے کرپٹ بھگوڑےتو الیکشن سے پہلے ہی PTIکے جھنڈے تلے پناہ لے چکے تھے،آرام سے بیٹھے رہے ،کچھ تو وزارت کے مزے بھی لوٹتے رہے اور اپنے ہی سابقہ بھائی بندوں کو ایف آئی اے اور نیب کے ہاتھوں جیل بھجواتے رہے ۔مگر سب ایک ایک کر کے رہائی پاگئے۔اگر پی ٹی آئی پناہ گزینوں پر ہاتھ ڈالتی تو ان کی علیحدگی کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا جن کے کندھوں کی بدولت عمران خان حکومت ٹکی ہو ئی تھی جو سلیکٹرز بھی نہیں چاہتے تھے ۔لہٰذا وقت گزارنے میں ہی عافیت تھی ہر کوئی پی ٹی آئی حکومت کو بلیک میل کر رہا تھا ۔اتنے میں ایک زبر دست دھماکہ ہوا،چینی کنگ جہانگیر ترین کا وزیر اعظم عمران سے ان کے عاقبت نااندیش وزراء نے ٹکرائو کرادیا ۔پہلے حملے میں جہانگیر ترین کا طیارہ جو حکومت میں آنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کے استعمال میں رہتاتھا پھڑ پھڑایا اور خاموشی سے لندن کے ہوائی اڈہ پر اترا پھر خاموشی چھا گئی۔ملک میں کچھ نے فرار ہونے کو مسلم لیگ (ن)کے سربراہ کے فرار سے جوڑا تو جہانگیر ترین نے تر دید کردی جب تردیدیں زیادہ ہوئیں تو یار لوگ بھی مسلم لیگ (ن)سے پینگیں بڑھانے کی باتیں کرنے لگے پھر ترین صاحب جس طرح چپکے سے گئے تھے ،اسی خاموشی سے وطن واپس لوٹ آئے ۔یار لوگ پھر بھی باز نہیں آئے اور وزیر اعظم کو اکساتے رہے اور انکوائریوں پر زور دیتے رہے ،بد قسمتی کے پر نہیں ہوتے ان کے صاحبزادے علی ترین بھی انکوائریوںکی زد میں آگئے، گھبرا کر ترین صاحب نے اپنے پر پھیلانے شروع کر دئیے اور اپنے قریبی MNAاور MPA میدان میں اتارنا شروع کر دیے۔اب پی ٹی آئی میں ہی عمران خان اورجہانگیر ترین گیم شروع ہو گیا ،جو ابھی جاری تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ آگیا۔ پی ٹی آئی کی بدقسمتی ایف آئی اے کے ریٹائردڈائریکٹر بشیر میمن کے انکشافات نے پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ جس پرخود وزیر اعظم کومیدان میں اترنا پڑا ۔اب میدان میں پی ٹی آئی خود اپنے آپ سے اُلجھی ہو ئی ہے اور اسے مات پر مات ہو رہی ہے ۔حتیٰ کہ ڈسکہ کے الیکشن کی طرح کراچی کے این اے 249میں خود اس کی اپنی سیٹ جو فیصل واوڈا کے چھوڑنے پر خالی ہو ئی تھی ، ہا تھوں سے نکل گئی۔کراچی کے حلقہ این اے 249کا رزلٹ آچکا ہے اور پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کو سیٹ ملی ہے جبکہ (ن)لیگ دوسرے نمبر پرآئی ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی کے امجد آفریدی 5ویں نمبر پر ہیں ۔ ڈسکہ میں بھی پی ٹی آئی ہاری ، کراچی میں بھی ہاری۔جبکہ کراچی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن)کاکوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ عمران خان جتنی باتیں کرتے ہیں اس کے مقابلے میں پہلے سیاستدان کرپشن کے ساتھ جھوٹ بولتے تھے اب یہ جھوٹ کے ساتھ کرپشن کر رہے ہیں ۔جبکہ ماضی میں95فیصد بائی الیکشن میں چھوڑنے والی سیاسی جماعت کو فتح میں سیٹ واپس ہو جاتی تھی ۔مگر پی ٹی آئی کے وزراء اور وزیر اعظم کی کارگزاریاں آدھی مدت گزرنے پر ہی ناقابلِ قبول شمار ہو رہی ہیں۔کراچی والوں نے 1100ارب کراچی پیکیج کا بدلہ پی ٹی آئی کو بری طرح شکست دے کر لے لیا،اگر عمران خان کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھتے تو یقیناً کراچی والے یہ سیٹ واپس لوٹا دیتے ۔پی ٹی آئی والے اپنی اس پے در پے شکستوں سے سبق حاصل کریں آئندہ آنیوالے انتخابات میں شکست ان کا مقدر بن چکی ہے ،وہ لاکھ کہتے رہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے مگر حقیقت تو یہ ہے اب ان کو این آر او لینے کی ضرورت ہے 22کروڑ عوام سے ۔قوم ان کو یہ این آر و دیتی ہے یا نہیں ، آئندہ الیکشن میں نظر آجائے گا۔

تازہ ترین