• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رقص ایک مدار ہے جس میں حیات اور کائنات گھوم رہی ہے۔ کائنات کی دھڑکن میں موسیقی کی تاریں پیوست ہیں۔ انھی سے وہ سانس لیتی اور زندگی کا نظام متحرک رکھتی ہے۔ کائنات کی باریکیوں پر غور کریں تو اس کے خالق کی حکمت اور کاریگری حیران کر دیتی ہے۔ جب لوگ کائنات اور زندگی کی حقیقتوں کو فراموش کر کے مصنوعی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر دنیا میں بہتری لانے والے بڑے ادارے اس کیلئےخاص دن متعین کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے دھیان میں یہ بات ڈالی جا سکے کہ وہ جو نظر انداز کر رہے ہیں اس میں ان کی خوشی، اطمینان اور روحانی سرور پوشیدہ ہے۔ اپریل کے آخری ہفتے یعنی 29تاریخ کو ہر سال رقص کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کی مناسبت سے اسکی افادیت کے حوالے سے بھی بات ہوتی ہے اور رقص کا عملی مظاہرہ بھی۔ پاکستان جیسے ملک میں لفظ رقص کے ساتھ بہت ہی غلط فہمیاں بندھی ہیں۔ ابھی تک ہم میں سے اکثریت رقص کے معنی و مفہوم اور انسانی شخصیت پر ہونے والے اس کے مثبت اثرات سے نابلد ہیں۔ ہم نے فلموں اور ڈراموں میں دکھائی جانے والی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو رقص کا نام دے رکھا ہے جس کی وجہ سے بھی لوگ اسے مکمل طور پر رد کر دیتے ہیں۔

رقص ذات کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کا نام ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ اگر روحانی حوالے سے بات کی جائے تو دھمال، بھنگڑا، رومی رقص اور ہر قوم کا روایتی رقص روحانی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا حامل ہوتا ہے۔ یہ انسان کی جمالیاتی تربیت کرتا ہے، اس کے من کے دریا میں شامل ہو جانے والی کثافت کو صاف کر کے انسانی روح کو روحِ مطلق سے رو برو کرنے کا نام ہے، دھرتی پر قدم سے ٹھوکر لگانا دراصل دھرتی کی دھڑکن سے جڑت پیدا کر کے اس کی طاقت کو خود میں بسا کر آسمان کی طرف اٹھنا اور آسمان کی کرنوں کو دھرتی میں جذب کرنا ہے۔ یوں انسان زمین اور آسمان کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ رقص کرتے ہوئے وہ روشنی کی شعاعیں بن جاتا ہے جو دور تک سفر کرتی ہیں۔ رومی نے عالم سے عاشق بننے کے سفر میں ایک لوہار کے لوہا کوٹنے کی آواز میں الوہی ردھم محسوس کیا تو ہاتھ اٹھا کر گول گھومنا شروع کر دیا۔ ہاتھوں کا یہ دائرہ نہ صرف پوری کائنات کو اپنے اندر سمونے کی تمنا ہے بلکہ پوری کائنات کے ساتھ اِک مِک ہونے کی تمنا بھی ہے۔ یہ ذات کی نفی کا عمل بھی ہے اور ذات کو مالا مال کرنے کی جستجو بھی۔ صوفیاء نے رقص کو ذات کی تطہیر اور ریاضت کے لئے ضروری خیال کیا۔ بلھے شاہ نے اپنے نام، مرتبے، علم اور ذات پات کی بڑائیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے رقص کو وسیلہ بنایا۔ انہوں نے گھنگھرو پہن کر صرف مرشد کو راضی نہیں کیا بلکہ اپنے تن من کے درمیان حائل دوری کو بھی ختم کیا۔ رقص مسلسل حرکت کا نام ہے۔ رقص کرنے والا جمود کے نظام کو توڑتا ہے۔ اس کا ایک پیر زمین پر، ہوا میں اور ہاتھ فضا میں اڑتے ہیں۔ وہ ان ہاتھوں سے خیر اور مثبت قوت وصول کرتا ہے اور اسے اپنے وجود کے ذریعے زمین تک منتقل کرتا ہے اسی طرح زمین کی زندگی، طراوت اور طاقت کو فضا میں بکھیر کر کثافتوں سے دور کرتا ہے۔

رقص انسان کو اس چالاکی، ہوشیاری اور مکاری سے نجات دلاتا ہے جو عقل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جس کی مدد سے وہ دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے جو نفع نقصان کے اردگرد گھومتی رہتی ہے جب انسان کی ہستی پر روحانی اسرار کھلتے ہیں تو وہ ایک نئی زندگی کی طرف قدم بڑھاتا ہے جو روحانی سرشاری سے بھری ہوتی ہے جس میں انسانیت کا احترام کیا جاتا ہے۔ کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو ہر چیز میں موسیقی اور رقص کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ جھومنا روح کی خاصیت ہے اور یہ سرشاری کی علامت بھی ہے۔ اس کا الٹ جمود ہے جو پہلے سوچوں پر طاری ہو جاتا ہے اور پھر وجود پر۔ پھل پھول، فصلیں، پودے، درخت، دریا، سمندر، وقت، پرندے اور جانور سب رقص کے عالم میں ہیں۔ وہ فطری قوانین کے تابع ہیں اور فطرت ہمیں دکھاتی ہے کہ کائنات ایک لَے پر دھڑک رہی ہے۔ یہ دھڑکنا رقص کے مترادف ہے۔ صرف انسان ایسی مخلوق ہے جس نے خود کو مادی حد بندیوں میں جکڑ کر اذیت کمائی ہے۔ یہ اذیت مختلف بیماریوں کی صورت اس کو پریشان رکھتی ہے۔ اس نے غذا کی طرح کڑوی دوائیوں کو دستر خوان کا حصہ بنا لیا ہے مگر وہ سکون کی میٹھی زندگی کی طرف پلٹنے کی سعی نہیں کرتا۔ رقص خوشی اور سرشاری کی وہ اعلیٰ کیفیت ہے جو انسان کو پَر لگا دیتی ہے۔ فطرت کے مطابق زندگی گزارنا سیکھیں جو آپ کو لامحدود کر دیتی ہے۔ عشق اور رقص کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یوں رقص خالص دلوں پر اُترتا ہے اور انہیں ہوائوں میں اڑاتا ہوا ہر شے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ صرف محبوب کی صورت یاد رہتی ہے اور اس کی محبت عاشق کو تھیا تھیا نچا کر اس کی ذات کی تطہیر کرتی ہے۔ بلھے شاہ نے کہا تھا:

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

تازہ ترین