• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہمارے سفیر ہیں، یہ ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں، یہ ہمیں 24 ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں، اس تمام زبانی جمع خرچ اور القابات کے بعد ان اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ اصل میں سلوک کیا ہوتا ہے زیر نظر تحریر سے کم و بیش اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ شاید یہ 2014ء تھا اور مسلم لیگ ن کا دور حکومت۔ انہی دنوں ایک وزیر برطانیہ کے دورے پر تھے میں نے ایک تقریب میں ان سے پوچھا، ہمارا وزیر کہاں ہے؟ موصوف نے جواب دیا آپس کی بات ہے اوورسیز پاکستانیز کی وزارت ہر دور حکومت میں سیاسی رشوت کے طور پر ہی دی جاتی ہے! شاید وزیر ترنگ میں آکر سچی بات کر گئے لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ روایتی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کا وزیر تو ہوتا ہے لیکن نہ کبھی دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اسے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کا ادراک ہوتا ہے وہ فقط وزارت کی سہولتیں اور ٹی اے ڈی اے انجوائے کرتا ہے۔’’پی ٹی آئی‘‘ کی حکومت بنی تو حالیہ وزیراعظم نے بھی اقربا پروری کی روایت کو زندہ رکھا اور اپنے ماضی کے فنانسر اور بعد ازاں دوست زلفی بخاری کو یہ عہدہ دے دیا۔ فل وزیر اس لئے نہیں بنایا کہ دوہری شہریت اور بعض قانونی معاملات آڑے آتے تھے، اب وزیرِ موصوف پاکستان کے اندر ہی اس قدر انوالو ہیں کہ دیگر ملکوں کو تو چھوڑیں لندن کے ہوتے ہوئے بھی اس ملک میں رہنے والوں کیلئے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرسکے اور نہ ہی انہیں ایسی کوئی فکر لاحق ہے۔

پالیسیاں، نعرے اور تقاریر تو ایسی ایسی دلنشین، دلفریب اورکانوںکو بھلی لگنے والی کی جاتی ہیں کہ بے اختیار کلمہ ٔتحسین بلند ہوتا ہے مثلاً ایئر پورٹ پر سہولتیں اور ون ونڈو کا اجرا، دو موبائل فون ٹیکس فری لانے کی اجازت، اوورسیز سے آنے والی میتوں کو ایئر پورٹ سے گھر تک فری ایمبولینس سروس، فنانس ایڈ اسکیم، حکومتی ہائوسنگ اسکیمز میں پانچ فیصد کوٹہ، ٹور ازم، آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہوٹلز اور ریزارٹس میں بکنگ پر 20 فیصد رعایت، اوورسیز پاکستانیوں کے لئے سرکاری تعلیمی اداروں میں دو بچوں کے لئے فیس میں 20 فیصد کی اسکالر شپ، تعلیمی قرضے، بینک اکائونٹس کھلوانے میں معاونت وغیرہ وغیرہ، گزشتہ سال بھی اس حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے پہلی نیشنل امیگریشن اینڈ ویلفیئر پالیسی تیار کی جو دس صفحات پر مشتمل تھی یہ پالیسی کیا ہوئی کوئی پتا نہیں۔ حکومت نے آتے ہی اعلان کیا کہ بیرون ملک قید پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لئے بھرپور کردار ادا کریں گے تو پھر کیا ہوا؟ اوورسیز پاکستانیوں کو کسی قسم کی سہولت دینے کی بجائے سفارتخانوں میں ویزہ دینے اور پاسپورٹ بنانے کی سہولت بھی ختم کرکے اسے آن لائن کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں ان کی املاک پر قبضے بھی ویسے ہی ہو رہے ہیں ان کے بچوں کے اغواکا سلسلہ بھی نہیں رُکا، پاکستان پہنچنے پر ایئر پورٹ سے ہی انہیں لوٹنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے نہ یہاں انہیں کوئی سہولت میسر ہے نہ الیکٹرانک کی کوئی چیز لانے پر چھوٹ، نہ گرین چینل کی سہولت بلکہ ایک موبائل فون تک پر ٹیکس کی چھوٹ مہیا نہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ اس حکومت کے اوورسیز وزیر زلفی بخاری، وفاقی اوورسیز ادارے اور پنجاب اوورسیزکمیشن کےچیئرمین اور وائس چیئرمین چودھری وسیم اختر رامے کا کیا کردار ہے، کیا یہ ادارے اور اس کے عہدیدار قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں؟ یہ لوگ صرف عہدے انجوائے کر رہے ہیں۔ یوں تو اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن بھی 1979ء سے قائم ہے اور ’’اوورسیز پاکستانیز فیڈرل کمیشن‘‘ کے ساتھ ’’وفاقی محتسب‘‘ کا حکومتی ادارہ بھی موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب کے موجود ہونے اور اربوں روپے کے فنڈز کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں کو ان کے کیا ثمرات حاصل ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں مقیم ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ان پاکستانیوں کو 24 ارب روپے پاکستان بھیجنے کے بعد کیا ملتا ہے آخر؟۔

اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں قائم کیا گیا جو ایک بہترین قدم تھا۔ 2014میں راچڈیل انگلینڈ میں مقیم ممتاز برطانوی قانون دان بیرسٹر امجد ملک نے اس کمیشن کا پہلا آئین یا ایکٹ تشکیل دیا اور انہیں ہی ’’پی او پی سی‘‘ کا پہلا چیئرپرسن بنایا گیا جب تک وہ اس عہدے پر رہے یوں لگا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے دیرینہ مطالبات و مسائل کا حل نکل سکے گا لیکن بعد ازاں نہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں کوئی خاطر خواہ نتائج ملے اور پھر حکومت بدلنے کے بعد دیگر ملکی معاملات کی طرح یہ ادارہ بھی فقط وعدوں، نعروں اور خوش کن خبروں تک محدود ہوگیا۔ مثلاً کیا یہ کمیشن بتا سکتا ہے کہ (1)گزشتہ اڑھائی سال کے دوران بورڈ کے کتنے اجلاس منعقد ہوئے ہیں ۔ (2) اس کمیشن کے چیئرمین وزیر اعلیٰ پنجاب نے کتنے اجلاسوں کی سربراہی کی ہے ۔(3) کیوں آج تک اس کی سالانہ کانفرنس نہیں ہوئی ۔ (4) اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن، اور ’’پنجاب اوورسیز کمیشن‘‘ کے مابین کوئی روابط کیوں نہیں۔ (5) حالیہ شکایات کا تناسب کیا ہے (6) اس کے آئین کے مطابق خصوصی قبضہ ٹربیونل کام کیوں نہیں کر رہے۔ (7) لینڈ رجسٹریشن کب مکمل ہوگی۔ (8) کیا یونیفائرڈ پورٹل کام کر رہا ہے ۔ (9) ایئر پورٹس پر خصوصی کائونٹرز کا کیا ہوا۔ (10) پارلیمنٹ میں اوورسیز پاکستانیز کی نشست کاکیا ہوا۔ (11) اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا کیا ہوا۔ (12) چیف منسٹر عثمان بزدار اس ادارے کے ہیڈ ہیں انہوں نے کیوں آج تک یو کے، یورپ اور دیگر ملکوں کا دورہ نہیں کیا ۔ (13)ادارے کی سالانہ رپورٹ ویب سائٹ پر موجود کیوں نہیں ۔ (14) کیا ادارے کے کمشنر نے کسی ایسے ماہر سے کبھی کوئی مشورہ کیا جو اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل سے آگاہ ہو (15) کمشنر کی کارکردگی رپورٹ کیا کبھی شائع کی گئی ۔ (16) اس ادارے نے آج تک پاکستان کے سفیروں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟ یہ وہ کلیدی سوال ہیں ‘جن کے فوری جواب دینا ضروری ہیں۔

تارکین وطن پاکستانی جنہیں عمران خان اپنا فخر کہا کرتے تھے، یورپ و برطانیہ کے پاکستانیوں کو تو گورنر پنجاب چوھری محمد سرور سے بھی بڑی امیدیں تھیں لیکن انہوں نے بھی ’’او پی سی‘‘ کو وسیم رامے اور زلفی بخاری کے حوالے کرکے اوورسیز پاکستانیوں سے زیادتی کی ہے اور ان اداروں میں جہاں اوورسیز پاکستانیوں کو جاکر تحفظ کااحساس ہونا چاہیے تھا وہاں سرکاری کن ٹٹے بٹھا دیئے گئے ہیں، حیرت ہے کہ 1997ء کے بعد ابھی تک تارکین وطن کا بین الاقوامی کنونشن منعقد نہیں ہو سکا۔ قومی اسمبلی و سینٹ کی کمیٹی سے بھی استدعا ہے کہ وہ گزارشات مرتب کرے تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاسپورٹ، ویزا اور ’’نادرا‘‘ کی سہولیات عام مل سکیں۔ وقت آ چکا ہے کہ تارکین وطن کی شکایات کے ازالے کیلئے ایسی بین الاقوامی کانفرنس لاہور یا اسلام آباد میں بلائی جائے جس میں پوری دنیا سے اوورسیز پاکستانیوں کے نمائندے شریک ہوں جن کی صدارت وقت کا وزیراعظم کرے۔

تازہ ترین