• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں پھیلی جان لیوا وبا سے ہونے والی معاشی تباہی، تشویش اور خوف و مایوسی سب پر عیاں ہے۔ یہ عالمی معاشرے خصوصاً حکمرانوں، سیاسی و مذہبی رہنمائوں، اسلحے کی پیداوار اور استعمال پر کنٹرول، سرمایہ و معیشت، دفاع و سلامتی، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و تحقیق اور ابلاغیات جیسے ناگزیر اور حساس شعبوں کے متحارب اجارہ اداروں کے لئے بھی بہت توجہ طلب سبق اور انتباہ ہے۔ دہریوں کے لئے بڑی دعوتِ فکر بھی کہ انہوں نے خالق کائنات و انسان کے بارے جتنا سوچا اور جو لاحاصل رائے بنائی، تصدیق ہو گئی کہ یہ بہت تنگ، محدود اور مہلک ہے۔قارئین کرام! ذرا سوچئے، آج بھی تحفظِ انسان اور انسانیت پورے عالمی معاشرے کا ہنگامی ایجنڈا بظاہر تب بنا جب انسان خود کو اپنی تہذیب و ترقی کی معراج پر فائز سمجھ کر اسے آدم خاکی کا عروج سمجھ رہا ہے۔ یہ اب بھی یقین نہیں کہ آج کے اس ہنگامی اور ناگزیر ایجنڈے میں استقلال کتنا ہوگا؟ تاہم کویڈ19 نے یہ تو ثابت کردیا کہ عروجِ آدم خاکی پر بھی انسان اور انسانیت اتنی ہی غیرمحفوظ ہے جتنی کرہ ارض پر اپنے ابتدائی سفر میں تھی۔ ایسے میں کہ فکر امن عالم کا ایجنڈا، تحفظِ انسانیت کے لئے اتنا ہی اہم ہو گیا جس طرح آج آکسیجن کی دستیابی اور یقینی فوڈ سیکورٹی۔ عدم تحفظ کے غالب عالمی منظر میں ریاست اور عوامی شعوری کوششوں سے پیدا کئے گئے مختلف انواع انسانی تہذیبوں کے باہمی شک و شبہات، اس کے فالو اپ میں کاروباری سیاست کی بیساکھی بننے والی تحقیق و ابلاغ اور داخلی کی طرح گندی علاقائی اور عالمی سیاست کی بلیم گیم میں ہی عالمی وبا کا شیطانی سیاسی پہلو بےنقاب ہو رہا ہے؟ ایسے میں امن عالم کی فکر ہی نہیں اسے یقینی بنانا بھی آج کی مہذب اور ترقی یافتہ انسانیت کا سب سے بنیادی تقاضا ہے۔ قارئین کرام! کیا دنیاوی طاقت کے مراکز ہائے اقتدار و سیاست اور مال و اسباب میں دوران وبا بھی احتیاط سے، کبھی کھل کر اور کبھی دب کر سیاسی و سفارتی انداز میں وبا کے نازل ہونے پر بلیک گیم کے عالمی ابلاغ کا تجزیہ بےنقاب نہیں کرتا؟ کہ نئے اور پرانے عالمی ساہوکاروں کی حسد اور طمح نے جن عالمی اور علاقائی جنگوں کے امکانات و خدشات پیدا کر کے آسٹریلیا و جاپان جیسے پُرامن ملکوں سے لے کر جنوبی بھارت اور امریکہ تک نئے عسکری اتحاد نے مغربی ایشیا سے جنوب مغربی ایشیا تا چین و روس ایسے ہی دفاعی صف بندی کے امکانات پیدا کئے، اس کی وجہ آزاد معیشت کے (چیلنج ہوئے) عالمی ماحول میں پاکستان اور چین کے علاقہ تا علاقہ INTER REGIONAL خوشحالی کے مشترکہ اور پُرامن INITIATIVEکا حاسدانہ امریکہ بھارتی ردعمل فطری تھا جو آزاد جمہوری، لبرل دنیا کی غالب عالمی اپروچ سے متصادم تھا (اور ہے) یہ کیا ہوا؟ کہ اسے جب عوامی جمہوریہ چین نے کھلی مارکیٹ کے عالمی مقابلے میں سرگرمی سے اختیار کیا اور چین و بھارت جیسی دونوں بڑی معیشتیں اس کی بڑی باہمی بینی فشری بنیں تو بھارت سی پیک کے حوالے سے اور امریکی ٹرمپ انتظامیہ کسی بھی واضح گھڑی وجہ کے بغیر ہی ’’ٹریڈوار‘‘ کا نیا ایجنڈا لے آئی، جیسے یورپین یونین اور برطانیہ تک سے بھی کوئی تائید نہ ملی۔ اس غیرمعمولی تشویشناک صورتحال نے سائوتھ چائینہ سی، بھارت کو بحر ہند کا چودھری بنانے، مقبوضہ کشمیر کو ہضم کرنے کی ناکام دیدہ دلیری، پاک بھارت نیم جنگی کیفیت، ایران، سعودی کشیدگی، ترکی کی دفاعی تیاریوں میں مداخلت اور اس کے متوازی ’’ڈیل آف سینچری‘‘ اور ہمسایہ عربوں سے پاکستان تک اسرائیل کو تسلیم کرانے کے دیدہ دلیرانہ دبائو کا ماحول بڑے انہماک و اشتراک سے گھڑا گیا، اس گندے کھیل میں ٹرمپ، نیتن یاہو او مودی کی پھرتیاں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھیں۔ نتیجہ فکر امن عالم کا گراف بلند ترین سطح پر چلا گیا تو ’’ٹریڈوار‘‘ کی شر کو افغانستان سے فوجوں کے انخلاء کے پُرامن اقوام سے توازن کا کارڈ نکالا گیا، جو یقیناً پُرامن تھا اور ہے لیکن ٹرمپ کے حوالے سے یہ ٹور ان ون تھا کہ افغانستان سے انخلا تو اب امریکہ کےلئے ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس کے متبادل لانے کا خطرہ ساتھ ہی پیدا ہوا اور کچھ ہے، تاہم سردست (خوشگوار حد تک) صدرجو بائیڈن کے کانگریس کے دونوں ایوانوں سے مشترکہ خطاب نے فضا بدل دی ہے۔

امن عالم (گلوبل پیس) تو دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی اقوام عالم کا متفقہ اور ترجیحی ایجنڈا بن گیا تھا جسے یقینی بنانے کے لئے سرحدوں کا احترام، اقوام کے حق خود ارادیت کا حصول، تنازعات کے پرامن حل اور اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عملدرآمد لازم قرار پایا، لیکن سرد جنگ اور اسے تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے دوطرفہ اور علاقائی جنگوں کو بڑی مکاری سے قبولیت دی گئی تو ’’امن عالم‘‘ کا ایجنڈا ’’فکر امن عالم‘‘ کے بیانیے میں تبدیل ہو گیا، جو ’’ٹریڈوار‘‘ اور اسلامو فوبیا کا شوشہ اور فتنہ کے دنیا کے وبا کی لپیٹ میں آنے کے باوجودجاری رہا وہ کورونا کے ساتھ ساتھ فکروتشویش کا باعث بنا رہا لیکن ذہن نشین رہے صرف ایشیا اور مسلم دنیا میں اس پس منظر میں امریکی صدر جوبائیڈن کا کانگریس کے پہلے مشترکہ اجلاس میں یہ اعلان کہ ’’ہم چین اور روس سے تصادم نہیں چاہتے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد بحال کرنا ہے۔ ہمارا مقصد افغانستان میں نسلوں تک لڑنا نہیں تھا، 20سال بعد افواج کو گھر بلانے کا وقت آ گیا، چین سے معیشت کے میدان میں مقابلے کے لئے تیار ہیں۔تاہم امریکی مفادات کا ہر صورت دفاع کیا جائے گا‘‘۔ ان کے خطاب کے یہ مندرجات تازہ ہوا کا جھونکا ہیں لیکن لازم ہے کہ انہوں نے جن ’’امریکی مفادات‘‘ کے ہر صورت دفاع کی بات کی وہ اگر متذکرہ ممالک اور خطے کے مفادات سے متصادم نہ ہوئے تو امریکہ کے امیج کی بحالی، اس کی بڑھتی متنازعہ حیثیت میں کمی سمیت ’’فکرامن عالم‘‘ میں خاصی کمی ہو گی عالمی سیاست کا رخ امن عالم اور ترقی پذیر دنیا کے استحکام و خوشحالی کی طرف ہو جائے گا۔ متنازعات پرامن مسلسل مذاکرات سے حل ہونے کا ماحول بننا شروع ہو سکے گا۔ جہاں تک پاکستان کی عمران حکومت کا تعلق ہے وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق اقتدار میں آتے ہی ’’اب جنگوں کے نہیں امن کی کوششوں میں فریق بننے اور اپنا کردار ذمے دارادا کرنے‘‘ کی پوزیشن عملاً لے چکی ہے۔ سی پیک جغرافیائی اور آغاز کے حوالے سے تو پاک چین مشترکہ منصوبہ ہے لیکن اس کے بینی فشری ممالک کا دائرہ وسیع ہونے کے امکانات مکمل واضح ہیں۔ صدر بائیڈن کا یہ اعلان کہ اب امریکہ چین سے کھلی مارکیٹ میں مقابلہ کرے گا، امریکہ کا تشخص بحال کرنے اور امریکہ کو اقتصادی اعتبار سے سنبھالنے کا قابلِ قدر ارادہ ہے۔ پاکستان کو چاہئے وہ چین سے اپنی گہری دیرینہ دوستی، روس سے نئے بڑھتے تعلقات، ترکی و سعودی و ایران سے فطری پارٹنر شپ کا فائدہ اٹھا کر سفارتی مشاورت سے صدر بائیڈن کے قومی خطاب کے متذکرہ اعلانات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ان سے تعاون و اشتراک کا قابلِ عمل لائحہ عمل تیار کرانے میں کردار ادا کرے۔ اس اعلان کے بعد یہ توقع اور بڑھ گئی ہے کہ پاکستان صدر بائیڈن کا تعاون حاصل کرنےکی سفارتی حکمت عملی تیار کرے تو بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔

تازہ ترین