12مئی کو قومی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کااعلان ہوا اور میاں نواز شریف کے چہرے سے روایتی مسکراہٹ غائب ہوئی تو ان کے مداحوں اورمخالفین نے جانا کہ قومی مسائل کے ادراک او ر عوام کی مشکلات و مصائب کے احساس نے تجربہ کارسیاستدان کی سنجیدگی میں اضافہ کردیاہے۔ روزانہ میڈیا میں ماہرین کے طویل اجلاسوں، قریبی حلقہ احباب سے مشاورت اور اہل دانش سے تبادلہ خیال کی خبریں نشر اورشائع ہوئیں تو یہ امید پیدا ہوئی کہ حکمران جماعت کے ہوم ورک، میاں صاحب کی ماہرین سے مشاوت اور نتیجہ خیزمنصوبہ بندی کا شاہکار قومی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو عوام اپنے حسن انتخاب پر جھوم اٹھیں گے اور اسحق ڈار کے ذہن رسا کی داد اپنے بیگانے سب دیں گے مگر ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو نیا افسانہ تھا“
بجٹ آیا تو تنخواہ دار طبقے کو سب سے زیادہ مایوسی ہوئی۔ بازار جا کر ہر آدمی کو جی ایس ٹی کی شرح میں اضافے کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور ڈبہ بند دودھ پر ٹیکس کے اثرات مقامی دودھ دہی خریدنے والوں نے محسوس کئے۔ لوڈشیڈنگ جوں کی توں ہے اور جاگیرداروں، سرمایہ داروں، تاجروں کے سوا کوئی خوش نہیں کیونکہ بجٹ میں ریلیف صرف اس طبقے کو ملا ہے جو عوام کا خون چوسنے کی شہرت رکھتاہے۔ بدقسمتی سے یہی مسلم لیگ (ن) کا سپورٹر ہے اور اسمبلی میں پہنچنے والے بیشتر لوگوں کا مالی سرپرست۔
زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ اور کوئٹہ میں دہشت گردوں کی کارروائی نے حکومت کے ان دعوؤں کی قلعی کھول دی کہ ایک قوم پرست کے حوالے بلوچستان کی حکومت کرکے علیحدگی پسند عسکری تنظیموں کی راہیں مسدود کرد ی گئی ہیں۔ پاکستان کے وجود قائداعظم کی یادگار پر اس شب خون نے علیحدگی پسندوں کے عزائم کو آشکار کیا اور اس تاثر کی نفی کہ بی ایل اے جیسی تنظیمیں کسی احساس محرومی اور سابقہ آمرانہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں فعال ہوئیں اور اقتدار بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو منتقل ہو تو یہ قومی دھارے میں واپس آسکتی ہیں۔ حربیار مری، ڈاکٹر اللہ نذر، براہمداغ بگٹی اور دیگر کی ناراضگی دور کرنے میں مدد ملے گی اور بلوچستان کا امن واپس لوٹ آئے گا۔
زیارت ریذیڈنسی کو نشانہ بنانے والوں نے جہاں اپنی وطن دشمنی اورقائداعظم سے بغض و عناد کا مظاہرہ کیا وہاں کوئٹہ اور بلوچستا ن کے عوام نے اس شرمناک واقعہ پر احتجاج کرکے ہمارے بعض دانشوروں اور قوم پرست سیاستدانوں کی طرف سے جاری اس منفی پروپیگنڈے پر کاری ضرب لگائی کہ کوئٹہ میں پاکستان کاپرچم لہرانا ممکن ہے نہ قومی ترانہ اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا۔ یہاں علیحدگی پسندوں کاراج ہے اورپاکستان سے وابستہ ہر علامت سے نفرت کا جنون۔ مگر پاکستان اورقائداعظم سے محبت بلکہ جذباتی وابستگی کے اس عظیم مظاہرے کو پروان چڑھانے میں ہمارے قومی اورصوبائی حکمرانوں کاحصہ کس قدر ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔
زیارت ریذیڈنسی اور کوئٹہ کے اندوہناک واقعات پر وفاق کاردعمل کیا رہا؟ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اسے صوبائی مسئلہ قرار دے کر ارکان اسمبلی کو تقاریر سے روکا۔ ماضی میں ہر چھوٹے موٹے واقعہ پر موقع واردات کامعائنہ کرنے والے وزیراعظم جاتی امرا میںآ رام فرماتے رہے اور عوام کی اشک شوئی کے لئے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان بروئے کار آئے ۔ شایدیوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی طرح موجودہ حکمران بھی وزیر داخلہ کو امرت دھارا سمجھتے ہیں ہر درد کا درماں۔ پہلے عبدالرحمن ملک تھے اب نثار علی خان ہیں ”کٹ گیا برنول لگایئے جل گیا برنول لگایئے“
معذرت کے ساتھ روز ِ اول سے وفاقی اورصوبائی حکومت غلط ترجیحات پر عمل پیرا ہے۔ وفاقی حکومت نے لوڈشیڈنگ کو قومی مسئلہ نمبر ون بنا لیا ہے اور ڈاکٹر عبدالمالک کی ترجیح نمبر ایک مسخ شدہ لاشوں اورگمشدہ افراد کے مسئلہ سے نمٹنا ہے۔ نتیجتاً دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور عسکری تنظیموں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیاہے۔ انہیں معلوم ہے کہ حکمران لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے اور مسخ شدہ لاشوں ، گمشدہ افراد کے مسئلہ سے نمٹنے کے لئے اجلاسوں، مشاورت اور اور منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان قوم پرست قیادت اور خیبرپختونخوا تحریک انصاف کے حوالے کرکے خودکو اسلام آباد اور پنجاب تک محدودکرلیا ہے جبکہ بلوچستان حکومت پاک فوج، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں سے نمٹنے کے بعد ہی ان کی طرف متوجہ ہوگی۔ تخریب کاری اوردہشت گردی کے لئے میدان کھلا ہے اور وہ جو چاہیں کریں کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والانہیں ورنہ قائداعظم ریذیڈنسی پراتنے گارڈ ضرورتعینات ہوتے جتنے پھٹیچر قسم کے وزیروں، مشیروں کی حفاظت کے لئے مامور ہیں۔
موجودہ حکومت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اسے اقتدار سنبھالتے ہی ڈرون حملوں،ہوشربا دہشت گردی اور احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑا اورذمہ دار کوئی اور نہیں اس کی اپنی غلط ترجیحات اور بچگانہ انداز ے ہیں۔ دونوں حکومتوں نے جتنے اجلاس صلاح مشورے اور دعوے لوڈشیڈنگ کے خاتمے، مسخ شدہ لاشوں اورگمشدہ افراد کے حوالے سے کئے اتنے کیا صرف ایک اجلاس بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سوچا بچار کی خاطر کیا؟ فوج، خفیہ ایجنسیوں، پولیس اور ماہرین کے ساتھ مل بیٹھ کر کوئی حکمت عملی تیار کی؟ نہیں!
غلط ترجیحات اور نمائشی اقدامات کافائدہ دہشت گرد اورعلیحدگی پسند اٹھا رہے ہیں۔عوام دشمن بجٹ کابوجھ عام آدمی اٹھانے سے قاصر ہے اور وہ احتجاج پر آمادہ۔ پاکستانی عناصر کامقابلہ کون کرے گا؟ جو زیارت اور کوئٹہ میں سرگرم عمل ہیں قائداعظم کے پاکستان اور یادگاروں کے خلاف۔
پس تحریر… سابقہ کالم میں پروف کی غلطی نے مصرعہ بگاڑ دیا ”بنتے ہیں تیرے چار سو، فی الحال چار اکھ“ کو چار لاکھ بنا دیا۔ پاکستان کے عوام اس قدر خوش قسمت کہاں کہ ان کے چار سو بنتے ہوں تو حکمران چار لاکھ عطاکردیں۔ قارئین تصحیح فرمالیں اور معذرت قبول کرلیں۔ شکریہ