کسی بھی نومنتخب حکومت کیلئے پہلے سو دنوں کوبہت اہمیت کاحامل کا سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان ہی ابتدائی سو دنوں میں حکومتیں اپنے الیکشن منشور کے تحت عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئے اپنی پالیسیاں مرتب اور اپنی سمت کا تعین کرتی ہیں ۔ تاریخی طور پر حکومتوں کی ابتدائی کارکردگی جانچنے کے لئے پہلے سو دن کا تصور پہلی بار فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے مارچ1933ء میں امریکہ کے بتیس ویں صدرکی حیثیت سے حلف اٹھا کر متعارف کرایاتھا، انہوں نے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں اشارہ کر دیا تھا کہ مشکلات میں گھِرے امریکی عوام کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے نومنتخب حکومت کو بہت تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بعد انہوں نے تین ماہ (تقریباََ سو دن) کے لئے کانگریس کے خصوصی اجلاس بلائے ، اپنی کابینہ کو الیکشن منشور کی تکمیل کیلئے متحرک کیا، امریکی صدر کے ابتدائی سو دن جون1933ء میں مکمل ہوئے تھے جس کے بعد پوری دنیا میں نئی جمہوری حکومت کیلئے پہلے سو دن کا ٹارگٹ سیٹ ہوگیا ۔ امریکہ پوری دنیا میںبطور واحد سپر پاور کی حیثیت سے ایک اہم مقام رکھتا ہے ، جب بھی امریکہ میں کوئی نئی حکومت آتی ہے تو پوری دنیا کی نظریں اس حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی پر لگ جاتی ہیں ، رواں برس جو بائیڈن کے زیر صدارت بائیڈن انتظامیہ کی امریکی حکومت کے پہلے سو دن اس لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور میںمتعدد متنازع فیصلے کئے تھے جو ان کی انتخابی شکست کا سبب بنے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری یہ صدارتی روایت بھی ختم ہوگئی جس میں ہرامریکی صدر دو بارہ وائٹ ہاؤس میںبراجمان ہوجایا کرتا تھا ۔ بلاشبہ ٹرمپ اپنی متنازع پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے عوامی توقعات پر پورا نہ اترسکے اور جو بائیڈن امریکی صدر کی حیثیت سے عوام کیلئے امید کی نئی کرن ہیں۔ ایک سروے کے مطابق امریکی عوام کی اکثریت صدر جو بائیڈن کی پہلے سو دن کی کارکردگی کو سابق امریکی صدر سے بہتر گردانتی ہے،بائیڈن انتظامیہ کے پہلے سو دن کے قابل ذکر اقدامات میں عالمی وباء کوروناکے خلاف انتھک جدوجہد ایک بہت بڑا کارنامہ ہے، کورونا وباء کے متاثرہ ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے، جوبائیڈن نے اپنے اقتدار کے پہلے سودن کے دوران سو ملین امریکی عوام کو کورونا ویکسین لگانے کا جو ہدف مقرر کیا تھا، وہ سو دن مکمل ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی حاصل کرلیا گیا ، تازہ اطلاعات کے مطابق امریکی تیزی سے معمولات زندگی کی جانب لوٹ رہے ہیں اور کافی حد تک کورونا کیسزپرقابوپالیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِصدارت میں کورونا وباء نے امریکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا تھا، تاہم موجودہ امریکی صدر کی مثبت اقتصادی پالیسیوں نے نہ صرف ڈوبتی امریکی معیشت کو سنبھالا ہے بلکہ بیروزگاری کی شرح میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی امیگریشن پالیسیوں کا تعلق خارجہ پالیسی سے ہے، سابق صدر ٹرمپ نے جن تیرہ مسلمان اور افریقی ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی، موجودہ بائیڈن انتظامیہ نے وہ پابندی ختم کر دی ہے،اسی طرح صدر جو بائیڈن نے میکسیکو کی سرحد پر متنازع دیوار کی مزید تعمیر کو روکتے ہوئے اسے وسائل اور پیسے کا ضیاع قرار دیا ہے اور اپنی ٹیم پر انسانی حقوق کی بنیاد پر امیگریشن قوانین اور پالیسیاں متعارف کرانے پر زور دیاہے، انہوں نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا حکم دیاہے جس کا مقصد ٹرمپ کے دور حکومت میںالگ کئے گئے خاندانوں کی نشاندہی کر کے ان کو پھر سے ملانا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کو پیرس موسمیاتی معاہدے سے الگ کر دیا تھا، جس سے یورپی یونین سمیت عالمی برادری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا لیکن بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف پیرس موسمیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کی بلکہ حال ہی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک ورچوئل سمٹ کا انعقاد کراکر قائدانہ کردار ادا کیا،آج امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگرمغربی ممالک کے ساتھ بھی امریکہ کے خوشگوار سفارتی تعلقات ایک نئی سمت کی جانب گامزن ہیں۔امریکہ کے روایتی حریفوں کی بات کی جائے تو کچھ عالمی قوتیں عالمی منظر نامے میں امریکہ اور چین کے درمیان غلط فہمیاں بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن امریکی صدر بائیڈن نے چینی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے تعاون کا ہاتھ بڑھایا ،سابق سپرپاور روس کے معاملے میں کچھ تلخیاں ضرور موجود ہیں لیکن امید کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک اپنے تحفظات کو عنقریب مذاکرات کی میز پردور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات بہت کشیدگی کا شکار رہے،تاہم صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی ایران کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنے کا عندیہ دیا جس سے خطے پر چھائے نئی عالمی جنگ کے امنڈتے بادل چھٹنا شروع ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر جو بائیڈن نہایت سمجھداری اور دوراندیشی کے ساتھ امریکہ کو اس کا کھویا ہوا عالمی مقام دلانے کیلئے درست سمت میں جدوجہد کررہے ہیں،ان کی اولین ترجیح اپنے عوام کی فلاح و ترقی اورعالمی برادری کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا آغاز بھی ہے۔ جوبائیڈن کو اپنے کچھ اقدامات کی بناء پر تنقید کا بھی سامنا ہے، تاہم انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں تنقیدکا بہترین جواب اچھی کارکردگی سے دیا جا سکتا ہے۔جو بائیڈن کے ابتدائی سو دن دنیا کی ہر حکومت کیلئے ایک سبق ہیں کہ پہلے سو دن کا ہدف مقرر کرتے وقت حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا جائے اور پھر اس کے حصول کیلئے دل و جاں سے جستجو کی جائے، آج جوبائیڈن نے اپنے ابتدائی اہداف کامیابی سے حاصل کرکے اپنا بقایا دورحکومت آسانی سے مکمل کرنے کی راہ ہموار کرلی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)