تحریر: نرجس ملک
ماڈلز: دیا، ماریہ علی، مہک، سریر حُسین،
ارمش بتول، اویس ملک
ملبوسات: مینا کار بائے فائزہ امجد
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
قدرتی آفات، عالم گیر وبائیں چھوٹا بڑا، امیر غریب، کالا گورا، مشرق، مغرب، مسلم، غیر مسلم کچھ نہیں دیکھتیں اور پھر ان کی زَد میں کتنے ہی مواقع، تقاریب، تہوار بھی آجاتے ہیں۔ شکیب جلالی نے ’’جشنِ عید‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا ؎ سبھی نے عید منائی مِرے گلستاں میں… کسی نے پھول پروئے، کسی نے خار چنُے… بنامِ اذنِ تکلّم، بنامِ جبرِ سکوت… کسی نےہونٹ چبائے، کسی نےگیت بُنے… بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا… کہیں تو بجلیاں کوندیں، کہیں چنار جلے… عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط… کسی نے بادہ و ساغر، کسی نے اشک پیے… کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی… کسی نے چاکِ گریباں، کسی نے زخم سیے… ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید دن بھی…کہیں پہ سایۂ ظلم، کہیں پہ نُور ملا… کسی نے دیدہ و دل کے کنول کِھلے پائے… کسی کو ساغرِ احساس چکنا چُور ملا… بہ فیضِ عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی…کوئی ملول، کوئی غم سے بےنیاز رہا…بڑا غضب ہےخداوندِ کوثر و تسنیم…کہ روزِ عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا۔
لیکن کم از کم اس دورِ ابلا، کورونائی ایّام میں اتنا تو ہوا کہ کسی حد تک ’’یک رنگی‘‘ ہوگئی۔ آج خواہ ویکسی نیشن کروانے کے لیے ہی سہی، ’’محمود و ایاز‘‘ ایک ہی صف میں تو کھڑے دکھائی دیئے۔ اور شاید یہ قدرتی آفات، عذاب، وبائیں، بلائیں آتی بھی اِسی لیے ہیں کہ انسان کو اُس کی حقیقت، اوقات یاد دِلاسکیں۔ اُسے بتاسکیں کہ وہ جو زمین پر اس قدر اکڑ کے، فخر و غرور سے گردن تان کر، سینہ پُھلا کے چلتا ہے کہ جیسے قدموں کی دھمک سے زمین پھاڑ ڈالے گا، گردن کے سریے، نظروں کے تیر سے اپنے سے ہر کم تر کو گھائل، چھلنی کرکے رکھ دے گا، خود اُس کی بساط و حیثیت پَرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ وہ تو محض ایک نادیدہ وائرس کی مار ہے۔
کیا 2020ء سے قبل کسی نے تصوّر بھی کیا تھا کہ آنے والے وقت میں اس گھمنڈی، شیخی خورے انسان کے ساتھ کیا بیتنے والی ہے، اُس کی اکڑفوں ایسے نکلنے والی ہے کہ کُشتوں کے پُشتے لگے ہوئے ہیں اور کچھ نہیں معلوم، بقول افتخار عارف ؎بکھر جائیں گے ہم، کیا جب تماشا ختم ہوگا.....کہ پردہ کب گرے گا، کب تماشا ختم ہوگا۔
یہ تیسری لگاتار عید (ایک عیدالاضحٰی اور دوسری عید الفطر) مہین سے کورونا کے مَہیب سائے تلے آئی ہے۔ کبھی کینسر کا نام خوف کی علامت ہوتا تھا، آج لوگ کورونا کا نام سُن کر ایسے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ جیسے ایک وائرس نہ ہو، کوئی لحیم شحیم، جدّی پشتی دشمن سامنے آکھڑا ہوا ہو۔ موت تو ہرحال برحق ہے، اُس کا ایک دن تو ازل سے معیّن ہے، تو پھر اس قدر خوف و ہراس کیوں؟ اور پتا نہیں یہ خوف و ہراس بھی کیسا ہے، جو قومِ بنی اسرائیل کی طرح اپنی تمام تر تفریحات، تعیّشات اور نافرمانیوں کے لیے بہرطور کوئی نہ کوئی جواز گھڑتا، راہ نکال ہی لیتا ہے۔
گھر بیٹھےمَن و سلویٰ نہیں، ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز، دال چاہیے۔ موت کا خوف سَروں پر منڈلا رہا ہے، لیکن ماسک نہیں لگانا، دَم گُھٹتا ہے۔ صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھنا، محنت طلب کام ہے۔ فاصلہ برقرار نہیں رکھنا، مشکل لگتا ہے۔ سارا رمضان، اصل روح سے خالی، ہر طرح کے درس و تربیت سےعاری، روتے دھوتے، لڑتے جھگڑتے گزار دیا، مگر ’’عید اہتمام‘‘ میں رتّی بھر کمی نہ رہ جائے۔ کیا کسی کو یاد بھی ہے کہ یہ عید، درحقیقت ہمارے کس عمل کا انعام، تحفہ ہے؟ ’’ماہِ صیام کو اس کی حقیقی روح کے مطابق گزارنے کا‘‘۔ اور جس نے اللہ کے اس مہمان کی قدر و منزلت، عزّت و حُرمت کا خیال نہیں رکھا، مہمان نوازی و ضیافت ہی نہیں کی، وہ بھلا مزدوری طلب کرنے، انعام وصولنے کا حق دار بھی کیوں کر ٹھہرا۔ ہاں، وہ ربِ دوجہاں، مالکِ کون و مکاں ہے، زمین و آسمان میں اُس کی بادشاہت ہے، وہ اپنے رحم و کرم سے جسے چاہے نواز دے، لیکن بہرحال، ہر شخص کو اس ماہِ مبارک کے اختتام پر ایک بار اپنے گریبان میں جھانکنا، اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے واقعی اس مہینے کا کوئی حق اس طور ادا کیا کہ اپنے پروردگار کے حضور سر اُٹھا کے تو کیا، سر جُھکاکے بھی کھڑے ہوسکیں۔
بہرکیف،جنہوں نے رمضان المبارک کو حقیقی معنوں میں ’’اللہ کے ماہ‘‘ کے طور پر برتا۔ کلیتاً نہ سہی جزوی طور پر ہی اُس کا حق ادا کرنے کی بھرپور سعی کی، جسمانی و روحانی تطہیر، ماہیتِ قلب کا ذریعہ بنایا۔ اس 30 روزہ ری فریشر کورس سے، سال بھر کے لیے کوئی درس، سبق حاصل کیا۔ گزرے پورے سال بلکہ پوری زندگی کی کثافتیں دھونے کی کوئی سعی کی۔
اپنے روٹھے خالق و مالک کو منانے، اُس کی ناراضی ختم کرنے کےلیےان چند ایّام کو(اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰت) کو اپنی خوش قسمتی، بلند بختی جانا اور اپنی بے ریا و بے بہا عبادتوں، ریاضتوں، مِنتّوں، سماجتوں، آنسوئوں کا خراج، نذرانہ پیش کیا، خصوصاً عشرئہ آخر میں کمر کَسی، کڑی محنت و مزدوری کرکے بالآخر نارِ جہنم سے نجات کا پروانہ لے کر ہی اُٹھے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے ضرورت مند عزیز رشتے داروں، دوست احباب، غرباء، مساکین، مسافروں کاحق ادا کیا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’پس(اے مومن)رشتے دارکو اُس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کاحق)، یہ طریقہ بہتر ہے، اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الروم، آیت نمبر۳۸)۔
یعنی یہ نہیں فرمایا گیا کہ رشتے دار، مسکین اور مسافر کو خیرات دے، ارشاد یہ ہوا کہ یہ اُس کا حق ہے، جو تجھے دینا چاہیے اور حق ہی سمجھ کر تُو اُسے دے۔ (اسلام اس قدر مواخات و مواسات، دل داری و خیر خواہی کا دین ہے) تو اُن سب کو ہماری طرف سے تہہ دل سے عید مبارک۔
بطور تحفہ، یہ چھوٹی سی ’’بزمِ عید ‘‘ اور شفا کجگاؤنوی کے چند عید اشعار آپ کی نذر ہیں ؎ چلو ہم عید منائیں کہ جشن کا دن ہے… خوشی کے گیت سُنائیں کہ جشن کا دن ہے… رُخوں پہ پھول کِھلائیں کہ جشن کا دن ہے… دِلوں میں پریت جگائیں کہ جشن کا دن ہے… مگر رُکو، ذرا ٹھہرو یہ سِسکیاں کیسی… خوشی کی رُت میں دُکھوں کی یہ بدلیاں کیسی… سُنو یہ غور سے، مائیں بلک رہی ہیں کہیں… یہ دیکھو، بچّوں کی آنکھیں چھلک رہی ہیں کہیں… منائے کیسےکوئی عید، ہر طرف غم ہے… منائے کیسے کوئی عید، آنکھ پُرنم ہے… سُنائے کیسے کوئی گیت، ساز ٹوٹ گئے… جگائے کیسے کوئی آس، اپنے چُھوٹ گئے… مگر یہ عید کا دن بھی تو اِک حقیقت ہے… کہ وجۂ عید سمجھنا بھی اِک عبادت ہے… چلوکہ روتے ہوؤں کو ہنسا کے عید منائیں… کسی کے درد کو اپنابنا کے عیدمنائیں… دِلوں سےاپنےعداوت مٹاکےعید منائیں… کسی کے لب پہ تبسّم سجا کے عید منائیں۔