• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پست لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کہنے والے نے ان کی موافقت میں بات کہی ہے یا ان کی مخالفت میں، جبکہ وہ موافق کو دوست گردانتے اور نوازتے ہیں اور مخالف کے دشمن بن جاتے ہیں مگر بلند حوصلہاور عالی ظرف لوگ موافقت اور مخالفت کی پروا کئے بغیر اپنا موقف ظاہر کردیتے ہیں، وہ اختلاف اور موافقت سے ہٹ کر سوچتے ہیں وہ اصل بات کو دیکھتے ہیں یہ نہیں کہ جو کہا گیا ہے وہ ان کے مواقف ہے یا ان کے خلاف اور جسے یہ سب کچھ کہا گیا ہے وہ صاحبِ اقتدار ہے یا محض عام انسان۔ اس بات کو اعلیٰ اقدار، عالی ظرفی و حسن کردار کہتے ہیں، آج جب کہ اقدار کا نہیں اقتدار کا دور ہے، خلوص کا نہیں خلوص کے اظہار کا زمانہ ہے، آئیے آپ کو اس مٹتی ہوئی اقدار کی چند مثالوں سے روشناس کرائوں کہ میں خود بھی ایسی ہی اقدار پر عمل پیرا ہوں۔ دور نبوی کے بعد اسلام میں بہت سے دور رہے ہیں، دور خلافت راشدہ، دور بنو امیہ، دور عباسیہ، دور فاطمیہ، دور سلجوقیہ،دور عثمانیہ، دور غزنویہ اور دور مغلیہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ واقعہ دور عباسیہ کا ہے۔ خلیفہ منصور عباسی نے ایک روز شام کے دیہاتیوں کی ایک جماعت کے سامنے تقریر کی اس نے کہا ’’اے لوگو! تم کو چاہئے کہ تم میرے جیسے خلیفہ کے ملنے پر ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ جب سے میں خلیفہ بنا ہوں ﷲ نے تم پر سے طاعون دور کردیا ہے‘‘۔ اس کے بعد سننے والوں میں سےایک نے کہا ’’ﷲ اس سے زیادہ کریم ہے کہ وہ ایک وقت میں ہمارے اوپر طاعون اور منصور دونوں کو جمع کردے‘‘۔ دیہاتی کا یہ جملہ سخت توہین آمیز تھا، عام طریقہ کے مطابق چاہئے تھا کہ خلیفہ منصور عباسی یہ سن کر بھڑک اٹھتے اور اُس شخص کو فوراً قتل کر دینے کا حکم دے دیتے مگر خلیفہ منصور نہایت بلند حوصلہ آدمی تھا اس نے دیہاتی کے جملہ میں گستاخی کا پہلو دیکھنے کے بجائے جرأت کا پہلو دیکھا اس نے اس کی قدرکی اور حکم دیا کہ اس شخص کو خزانہ خاص سے انعام دیا جائے اور اس کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ دوسری مثال آج کے زمانے کی ہے۔ فوج کا ایک اعلیٰ افسر کسی رجمنٹ کا معائنہ کررہا تھا گھومتے گھومتے وہ ایک لیفٹیننٹ کے پاس پہنچا، دورانِ معائنہ اس نے دیکھا کہ اس کی وردی میں ایک بڑا نقص ہے، افسر نے لیفٹیننٹ کو سختی سے ڈانٹا۔ قریب تھا کہ منہ سے جھاگ اڑاتا نوجوان لیفٹیننٹ جذبات سے مغلوب ہوگیا اس نے پستول نکالا اور افسر پر فائر کرنا چاہا لیکن پستول نہ چلا، یہ صورت حال دیکھتے ہوئے افسر نے اسی وقت حکم دیا کہ لیفٹیننٹ کو ایک ہفتے تک کوارٹر گارڈ میں رکھا جائے کہ اس کا پستول صحیح حالت میں نہ تھا۔ ایک اور واقعہ سنئے، ہمارے ہمسائے بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے پولیس کے چیف سے کہا کہ انگریزوں کے دور میں ان کے خلاف جو فائل تیار کی گئی تھی وہ انہیں دکھائی جائے۔ کافی دنوں کے بعد جب پولیس چیف نے پنڈت نہرو کے حکم کی تعمیل نہ کی تو انہوں نے دوبارہ پولیس کے چیف کو طلب کیا۔ ’’تم نے کوئی وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟‘‘ پنڈت جی نے کہا ’’جناب ہم وہ فائل تلاش کررہے ہیں۔‘‘ چیف نے جواب دیا۔ وزیراعظم ہند نے ذرا تلخی سے پوچھا ’’آخر وہ فائل کہاں چلی گئی، مل کیوں نہیں رہی؟‘‘ پولیس چیف نے جواب دیا۔ ’’سر پولیس کی فائلیں سیاسی لوگوں کے خلاف ہوتی ہیں اور خلاف ہی رہتی ہیں ۔ جب لوگ نیچے چلے جاتے ہیں تو فائلیں اوپر آجاتی ہیں اور جب لوگ اوپر آجاتے ہیں تو فائلیں پیچھے چلی جاتی ہیں۔‘‘ پنڈت نہرو مسکراکر رہ گئے۔

ایک اور حالیہ واقعہ سنیے۔ مندرجہ بالا واقعات گزشتہ دنوں ایک ڈچ ٹی وی پروگرام دیکھتے ہوئے یاد آئے۔ یہ حالیہ واقعہ اور ڈچ ٹی وی پروگرام یہ تھا کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جیک سڑا جن دنوں ہوم سیکریٹری تھے ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے جیک سڑا نے بتایا کہ 1970ء کے عشرے میں انہیں (جیک سٹرا) ایک سیاسی تخریب کار سمجھا جاتا تھا اس وقت وہ نیشنل اسٹوڈنٹس کے صدر تھے اور ایم آئی فائیو نے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں فائل بنا رکھی تھی اور آج جب وہ ہوم سیکریٹری ہیں اور ایک بااختیار عہدہ پر فائز ہیں، انہوں نے محکمہ پر واضح کردیا ہے کہ وہ ا پنے ’’دور تخریب‘‘ کی فائلیں نہیں دیکھنا چاہتے کہ ایسا کرنا بطور ہوم سیکریٹری اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھانا ہے۔ انہوں نے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ جیسا کہ ایک عام شہری کو اس کا حق حاصل نہیں ہے ویسا ہی انہیں بھی اس فائل کو دیکھنے کا حق حاصل نہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نہ صرف انہیں تخریب کار سمجھا جاتا تھا بلکہ ان کی ڈاک سنسر کی جاتی تھی اور ٹیلی فون ٹیپ کئے جاتے تھے اور کہیں آنے جانے پر سفید کپڑوں میں پولیس ان کا پیچھا کرتی تھی وغیرہ وغیرہ۔ میرے حساب سے ان سب باتوں کے جواب میں ہوم سیکریٹری یعنی سابق وزیر خارجہ کا اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی ہی برطانوی معاشرے کی اعلیٰ اقدار کا پتہ دیتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر واقعہ کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ منفی پہلو آدمی کے اندر صرف تخریبی نفسیات کو جگاتا ہے اور مثبت پہلو اس کے اندر تعمیری نفسیات کو جگاکر اس کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے لئے کارآمد بن سکے اور دوسروں کے لئے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بڑا کام وہی لوگ کرتے ہیں جو واقعات کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ تخریب کس کو کہتے ہیں اور تعمیر کیا ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے…

تازہ ترین