• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2013کے انتخابات کا طبل بج چکا تھا، وفاقی وزرا بوریا بستر باندھ کر اپنے اپنے حلقہ ہائے نیابت روانہ ہو رہے تھے ۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے منسٹرز کالونی میں اپنی رہائش گاہ پر صحافی دوستوں کے اعزاز میں ’’غیر سرکاری‘‘عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا، آف دی ریکارڈ ’’گپ شپ ‘‘ میں قمر زمان کائرہ نے بڑی خود اعتمادی سے کہا کہ ’’ان شا اللہ انتخابات کے بعد آپ سے دوبارہ ملاقات ہو گی ‘‘۔ بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے طنز کا تیر چلا یا ’’ محترم ! آپ کی جماعت نے پانچ سال میں جو کارنامے سر انجام دئیے ہیں اس کا پارلیمنٹ میں دوبارہ واپس آنا مشکل نظر آتا ہے ‘‘۔ قمر زمان کائرہ نے غیر متوقع حملے کا قدرے سنبھل کر جواب دیا ’’ میدان بھی حاضر گھوڑا بھی حاضر ۔ 11مئی2013 کا سورج تو طلوع ہونے دیں ‘‘۔پھر وہی ہوا، عام انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک سمٹ کر رہ گئی ۔ پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں شکست کو فراخ دلی سے قبول کرنے کی بجائے اسے آ ر اوز کا الیکشن قرار دے دیا ۔ آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب سے لانچ کرنے کا پروگرام بنایا تو نیئر بخاری ،مصطفیٰ نواز کھوکھر ،قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور جیسے متحرک رہنمائوں کو پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا حصہ بنا دیا۔ حاجی نواز کھوکھر جن کے ذکر کے بغیر اسلام آباد کی سیاسی تاریخ نامکمل ہے عملاً سیاست سے ریٹائر ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود ان کا ملکی سیاست میں بڑا عمل دخل تھا انہوں نے اپنا سیاسی جانشین مصطفی ٰنواز کھوکھر پیپلز پارٹی کو دے دیا۔ اسلام آباد میں حاجی نواز کھوکھر کا طوطی بولتا تھا وہ اپنا بیشتر وقت آصف علی زرداری کے ساتھ گزارتے تھے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا مصطفیٰ نواز کھو کھرپر اس حد تک اعتماد تھا ان کو اپنا ترجمان بنا لیا ۔25جولائی 2018 کے متنازعہ انتخابات میں بھی بوجوہ پیپلز پارٹی ٹیک آف نہ کر سکی دھاندلی کے باوجود پیپلز پارٹی نے سندھ میں میدان مار لیا ۔پیپلز پارٹی فیڈریشن کی جماعت ہے، بے نظیر بھٹو کو چاروں صوبوں کی زنجیرتصور کیا جاتا تھا۔ 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ’’کھمبے‘‘ کو ٹکٹ دیا تو وہ بھی عوام کے ووٹوں سے پارلیمان میں پہنچ گیا ۔ طویل عرصہ تک پنجاب پیپلز پارٹی کا پاور بیس رہا ہے ۔بے نظیر بھٹو کے دور میں کسی حدتک پیپلز پارٹی کی پنجاب پر گرفت رہی لیکن جب سے پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے پاس آئی ہے پیپلز پارٹی کے جیالوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکنوں نے پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھا لئے جبکہ کچھ نے مسلم لیگ (ن) میں پنا ہ لے لی۔ جس جماعت کو جنرل ضیا ا لحق کا جبر ختم نہ کر سکا اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی میں بننے والے سیاسی اتحاد ختم نہیں کر سکے ،اسے اپنوں کی ’’کارستانیوں ‘‘نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ گیلپ سروے کے مطابق پی ٹی آئی کی قوت بننے والوں میں تیس فیصد سے زائد پیپلز پارٹی کے مایوس کارکن ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالتے ہی پنجاب میں پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ دی۔ 1970کے عشرہ میں ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بولتا تھا ۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کے خلاف کسی کو بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ پنجاب پیپلز پارٹی کا ’’پاور بیس‘‘ رہاجسے سیاسی مصلحتوں کے تحت دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔قمر زمان کائرہ کو وسطی پنجاب کا صدر اور چوہدری منظورکو جنرل سیکریٹری بنایا گیا ۔ انہوں نے جب پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو پنجاب میں پیپلز پارٹی عملاً ختم ہو چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کا سرے سے کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔قمر زمان کائرہ ، چوہدری منظور اور حسن مرتضیٰ نے پچھلے تین سال کے دوران پارٹی کی تنظیم سازی پر خصوصی توجہ دی۔ اچانک خبر آئی کہ قمر زمان کائرہ ، چوہدری منظور اور حسن مرتضیٰ نے پارٹی کی قیادت کو اپنے استعفے پیش کر دئیے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ خوشاب کی صوبائی نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کا 235ووٹ حاصل کرنا ہے ۔قمر زماں کائرہ نے کہا ہے تین سال کی مدت ختم ہونے کے بعد ہم نے پارٹی قیادت کو استعفے دے دئیے ہیں ۔جب چارج سنبھالا تو دفتر میں ریکارڈ نام کی کوئی چیز نہیں تھی، آج وسطی پنجاب کا مکمل ریکارڈ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ قمر زماںپنجاب میں پیپلز پارٹی کو ’’مقبول جماعت‘‘ تو نہ بنا سکے لیکن وسطی پنجاب میں ایک منظم جماعت بنا دیا ۔اب دیکھنا یہ ہےکہ اس شکستہ کشتی کا کون سوار بنتا ہے؟

پاکستان میں ماہ رمضان المبار ک شروع ہوتا ہے یا اس کا اختتام۔ رویت ہلال پر قوم منقسم ہو کر رہ جاتی ہے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی موجودگی میں چاند دیکھنے کے معاملہ پر تنازعہ کھڑا ہونا معمول بن گیا ہے۔ مسجد قاسم علی خان پشاور اسکول آف تھاٹ سالہاسال سے افغانستان اور سعودی عرب کے ساتھ عید کرنے پر مصر ہے۔ کہیں چاند نظر آئے یا نہ آئے،مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو چاند دیکھنے کی گواہی دینے والے مل جاتے ہیں ۔ایک خاص پٹی میں چاند دیکھنے کی ’’واردات‘‘ ہوتی ہے ۔اب کی بار بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی رات گئے تک سر جوڑ کر بیٹھی رہی ۔ اس دوران مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے ہمیشہ کی طرح چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا ۔ بے چاری مر کزی رویت ہلال کمیٹی کو بھی آدھی رات چاند نظر آنے کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا گیا لیکن مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن کے ٹیلی فون پر ’’مفتی منیب الرحمٰن کم از کم دبائو کا مقابلہ تو کر لیتے تھے ‘‘ کے جملہ نے مولاناعبدالخبیرآزاد کے اعلان کو’’ مشکوک ‘‘بنا دیا ہے ۔ جب موجودہ حکومت بر سر اقتدار آئی تو فواد حسین چوہدری نے چاند دیکھنے پر مفتی منیب الرحمٰن سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تھی۔ فواد حسین چوہدری نے توکہہ دیا تھا کہ اب کی بار 30کا رمضان ہو گالیکن 29رمضان المبارک کا چاند نظر آنے پر پر اسرار خاموشی اختیار کرلی ۔ مفتی منیب الرحمٰن اور جامعہ نعیمیہ کے سربراہ مولانا راغب نعیمی کے قضا روزہ رکھنے کے اعلان نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ 1967 میں جمعہ کو دو خطبات سے بچانے کے لئے رات گئے 29رمضان المبارک کی عید کرنے کا زبردستی اعلان کرایاگیا تو سید ابوالاعلیٰ مودودی ،مولانا احتشام الحق تھانوی ،مولانا غلام اللہ خان سمیت متعدد علما کرام کو نظر بند کر دیا گیا، کچھ کو دو ماہ کے لئے مچھ جیل بھیج دیا گیا ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن مفتی یاسین ظفر کی ویڈیو نے معاملہ مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ غیر مصدقہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب کی بار بھی دو خطبات سے بچنے کے لئے 29رمضان المبار ک کا ’’چاند‘‘ نظر آنے کا اعلان کروایا گیا ہے۔ اسدعمر نے دلچسپ ٹویٹ کیا ہے کہ’’ ایک زمانے میں ایوب خان کی تصویریں ٹرکوں کے پیچھے لگی ہوتی تھیں اور لکھا ہوتا تھا … تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔کل کے بعد اب کہیں یہ بات مفتی منیب کی تصویر کے ساتھ نظر نہ آنا شروع ہو جائے‘‘۔

تازہ ترین