تعلیمی ادارے کھیلوں کی نرسری ہوتے ہیں،ماضی میں پاکستان کو تعلیمی اداروں نے بے شمار نامور کھلاڑی دیئے جنہوں نے قومی اور عالمی سطح پر پاکستان کی نیک نامی میں اہم کردار ادا کیا، وہ قوم کے رول ماڈل بنے، ایک زمانہ تھا جب تعلیمی اداروں میں اسپورٹس کوٹے پر داخلے کے لئے کھلاڑیوں کی قطار لگی ہوتی ، داخلہ لینا ایک مشکل امر تھا۔
اس دور میں اسکول اور کالجوں کے علاوہ انٹر یونیورسٹی مقابلوں کے دراون دل چسپ اور سنسنی خیز مقابلے نظر آتے تھے،تماشائیوں میں بچوں کے والدین کی بھی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی، ہاکی، کر کٹ ،فٹبال مقابلوں میں کھلاڑی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کرتے تھے، ہر اسکول اور کالج میں کھیلوں کے مقابلے لازمی حصہ تھے، زیادہ تر سرکاری اسکول اور کالج ہوتے تھے جہاں کھیل کا میلہ سجا ہوتا تھا۔
اسپورٹس فیس کا درست استعمال ہوتا تھا، مگر آہستہ آہستہ تعلیمی ادروں سے کھیل نایاب ہوگئے،اس وقت تمام تعلمی ادادے بھاری فیس وصول کررہے ہیں مگر وہاں کھیلوں کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں،کئی اسکولوں میں تو کسی بھی کھیل کی ٹیم تک نہیں ہے، افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اس وقت انٹر اسکولز اور کالجیٹ ٹورنامنٹس میں شریک ٹیموں کی تعداد بھی چار اور پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔
اسی قسم کی صورت حال یونیورسٹی ایونٹ میں بھی نظر آتی ہے جہاں پہلے دن ہی کوارٹر فائنل مقابلے ہوجاتے ہیں اور دو دن میں مقابلے ختم ہوچکے ہوتے ہیں،حکومت اور محکمہ تعلیم کی جانب سے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے، کئی اسکولوں اور کالجوں میں کھیل کے میدان تک نہیں ہے، جبکہ یہ ادارے کھیلوں کی مد میں فیس وصول کررہے ہیں،پاکستان میں کھیل کے شعبے میں تنزلی کی اہم وجہ بھی نچلی سطح پر کھیلوں کا خاتمہ ہے، نئے کھلاڑی اسی لئے سامنے نہیں آرہے ہیں، پاکستان میں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر ملک میں کھیل کے شعبے میں ترقی ناممکن ہے۔