• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے حکم پر امریکی حکومت نے پاکستان کو ایف 16طیاروں کی مد میں دی جانے والی امدادی رقوم روک لی ہیں۔ اس پابندی کی وجہ سے پاکستان کو 8طیارے خریدنے کیلئے ساری رقم 70کروڑ ڈالر خود ادا کرنا ہوگی۔ معاہدے کے مطابق 27 کروڑ ڈالر پاکستان نے ادا کرنے تھے‘ باقی 43کروڑ ڈالر سبسڈی کا امریکی حکومت نے وعدہ کیا تھا۔ ایک سپر پاور تحریری معاہدوں سے کس سہولت کے ساتھ ’’مکر‘‘ سکتی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ’’اوبامہ انتظامیہ‘‘ اب بھی پاکستان کو طیارے فروخت کرنے کے حق میں ہے لیکن اس کیلئے امریکی پیسہ خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ جب طیاروں کی فروخت کا معاہدہ ہوا اس وقت ادائیگی کا طریقہ کار طے کیا گیا تھا تو اب بہانہ سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ طیاروںکی فراہمی پاکستان کے سر کوئی احسان نہیں‘ اس لئے کہ پاکستان امریکا کا اتحادی اور اس کے مخالفین کو شکست دینے کیلئے ’’فرنٹ لائن‘‘ (ہراول) کا کردار ادا کر چکا ہے۔ اب بھی عالمگیر دہشت گردی کیخلاف سب سے زیادہ قربانی اور مؤثر کارروائی بھی پاکستان نے کی ہے جبکہ امریکا سمیت ساری قومیں دہشت گردی کے خلاف پسپا ہو رہی ہیں مگر پاکستان نے سب سے بڑے اور خطرناک گروپوں کو ختم کرنے کیلئے فیصلہ کن اور کامیاب کارروائی کی ہے۔ پاکستان کا جانی اور مالی نقصان کسی بھی ملک سے زیادہ ہے اور کامیابی کا تناسب بھی سب سے بڑھ کر ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کامیابی سے جاری رکھنے کیلئے جدید F-16 طیاروں کا بنیادی کردار ہے‘ کیونکہ ان میں ایسے سسٹم اور آلات نصب ہیں کہ رات کے اندھیرے میں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانے کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا سکتا ہے۔ ان طیاروں کی بلاجواز مخالفت کی جا رہی ہے۔ کانگریس اور امریکی حکومت پوری طرح جانتی ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پوری جانفشانی سے کامیاب کوشش کر رہا ہے۔ اس جدوجہد میں ان طیاروں کا کلیدی کردار ہے۔ خطے میں خطرے کے کم ہونے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ خود امریکا کو ہے‘ جو سولہ برس تک ان دشمنوں سے لڑنے کے بعد پسپا ہو رہا ہے۔ اب بھی خطے میں اس کا وقار اور مفاد خطرے میں ہے۔ پاکستان‘ امریکا اور افغان حکومت کے مخالف عناصر سے قربت پیدا کر کے خود کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ امریکا اور اس کی عاقبت نااندیش کانگریس کی پالیسیاں پاکستان کو ایسا کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ پاکستان طالبان کیخلاف نرم پالیسی اختیار کر کے خود کو محفوظ اور جنگ سے باہر نکال سکتا ہے۔ پاکستان کا دبائو ختم ہونے کے بعد کابل حکومت چندماہ بھی نہیں ٹھہر سکتی۔
ہمیں امریکی حکومت پر طعنہ زن ہونے سے پہلے حکومت کی ناکامی اور وزارت خارجہ کی نااہلی کا بھی جائزہ لینا چاہئے۔ پاکستان نے امریکا سے یہ طیارے تخریب کاروں کے ٹھکانوںکو نشانہ بنانے کی بہتر صلاحیت کی وجہ سے حاصل کرنے کا پروگرام بنایا تھا‘ جس میں امریکی مشورہ اور ایما بھی شامل تھا۔ ان طیاروں کے ساتھ ضروری آلات اور ریڈاربھی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مارچ کے شروع میں امریکی سینٹ نے ان طیاروں کی پاکستان کے ہاتھ فروخت کے خلاف قرار داد تین چوتھائی کی اکثریت مستر د کر کے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس دوران انڈیا نے طیاروں کی فراہمی پر منفی ردعمل ظاہر کیا۔ انڈیا میں مقیم امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا گیا۔ وزیراعظم مودی‘ باراک اوبامہ سے ملاقات میں بھی اس بارے میں بات کر چکے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ انتظامیہ کے فیصلے‘ سینٹ کی منظوری کے بعد کمیٹی کے چیئرمین کو ’’ویٹو‘‘ حاصل ہونا بعد از عقل ہے۔ سچ یہی ہے کہ انڈیا کی مخالفت‘ بروقت واویلا‘ اراکین کانگریس کے ساتھ مؤثر لابی نے طیاروں کے حصول میں مشکلات پیدا کیں۔ اس کا نقصان صرف پاکستان ہی کو نہیں بلکہ امریکا کے دہشت گردی کے خلاف کوشش کو بھی نقصان پہنچے اور پاکستان کے ساتھ سرد مہری(جو پہلے ہی پیدا ہو چکی ہے) مزید گہری ہوتی جائے گی۔ بروز جمعہ امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کی میٹنگ کے دوران ’’پانامہ لیکس‘‘ کا حوالہ دیا گیا اور پاکستان کی اقتصادی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے۔
ایک طرف انڈیا میں صرف آٹھ طیاروں کی خریداری پر سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا جاتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم امریکی صدر سے بات کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں سرے سے کوئی وزیرخارجہ ہی نہیں جو اپنے ہم منصب سے بات کرے اور کانگریس کو بھی بروقت جواب دے۔ وزیراعظم پانامہ پیپر میں نام آنے کے بعد اپنی اخلاقی پوزیشن کھو چکے ہیں اور خود براہ راست بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وزارت خارجہ کی ناکامی براہ راست وزیراعظم کی ذمہ داری ہے جو تین سال میں ایک کل وقتی وزیر خارجہ تلاش نہیں کر سکے اور یہ اہم منصب اپنے پاس رکھ کر ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی ایک تاریخ جو قیام پاکستان کے صرف دو ماہ بعد گرم جوش دوستی سے شروع ہوئی مگر ستر برس کی اس تاریخ میں امریکا نے اپنا کام نکل جانے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا ‘نہ ہی کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔البتہ پاکستان کی خدمات امریکا کو ’’واحد سپر پاور‘‘ بنانے میں خود امریکا سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ بہت دنوں کی بات نہیں کہ روس امریکا سے بڑی اور خوفناک طاقت تھی۔ امریکا اور ا س کے اتحادیوں نے اس کا سامنا کرنے کی ہمت تھی نہ جرأت۔ روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو پاکستان کی اس کی جارحیت کو اس پر الٹ دیا۔ حتیٰ کہ وہ اس کے بوجھ تلے دب کے رہ گیا اور امریکا کو واحد سپرپاور بننے کا اعزا ز ملا تو پہلا کام جو اس نے کیا وہ ’’پریسلر ترمیم‘‘ کی آڑ میں پاکستان پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے مگر یونہی امریکی فوج کا بڑا حصہ افغانستان سے نکل گیا پھر پاکستان پر پابندیاں شروع ہو گئیں۔ امریکی فیصلے اپنے مفاد اور پالیسی کے مطابق ہیں‘ ان سے گلہ اور طعنہ زنی کا کچھ فائدہ نہیں۔ اصل رونا ہماری حکومت کی کارکردگی اور غیرمؤثر پالیسی کا ہے۔ ہماری حکومتیں بروقت فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتی ہیں‘ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے نکل کھڑی ہوتی ہیں۔ پاکستان کیلئے بہترین زمانہ وہی ہے جب امریکا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی تھی یا سرد مہری۔ 1965ء کی جنگ میں امریکا کی طرف سے لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان نے چین کی مدد سے گولہ بارود بنانے میں خود کفالت حاصل کی۔ اس میدان میں آج تک ہمیں دشمن پر برتری حاصل ہے۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد امریکانے پاکستان کو ٹینک بیچنے سے انکار کیا‘ ساتھ ہی اقتصادی اور دفاعی نوعیت کی پابندیاں لگائیں تب پاکستان نے ’’الخالد‘‘ ٹینک بنایا‘ پرانے ٹینکوں کو ری بلڈ کیا۔ امریکا نے جہاز دینے سے انکار کیا تو ’’کامرہ‘‘ میں میراج طیاروں کی ری بلڈنگ شروع ہوئی۔ پھر چین کے تعاون سے ایف سیون لڑاکا طیارے بنائے گئے۔ امریکا نے ڈرون دینے سے انکار کیا تو پاکستان نے اپنے ڈرون طیارےتیار کئے اور ان میں نصب کرنے کیلئے میزائل بنائے۔ طیارہ شکن سٹنگز میزائل دینے سے انکا رکیا تو ’’ڈاکٹر اے کیو خان‘‘ نے ’’کہوٹہ‘‘ لیبارٹری میں ان سے بہتر طیارہ شکن میزائل تیار کر لئے۔ انہی پابندیوںکی مجبوری نے ایٹم بم بنوایا‘ میدان جنگ کے ایٹمی ہتھیار تیار ہوئے‘ بلاسٹک میزائل تیار کرنے کی صلاحیت ملی۔ امریکی پابندیاں ہمارے لئے فائدہ مند رہی ہیں‘ جس قدر امریکا سے دور رہیں گے اسی قدر خودکفالت حاصل ہوگی اور دبائو سے آزاد رہیں گے۔
امریکا کے مخالف اور دشمن خود چل کر ہمارے پاس آئیں گے جس سے ہمارے تعلقات میں وسعت پیدا ہوگی۔ ہماری جنگی اور دفاعی ہتھیار بہتر کرنے اور مارکیٹ میں فروخت کرنے کے مواقع آزاد ہوں گے۔ پاکستان ہی ایسی واحد مثال نہیں ہے‘ جب تک ایران امریکا کا اتحادی تھا‘ امریکا نے اس کی مارکیٹ پر قبضہ کئے رکھا‘ مہنگے ہتھیار فروخت کئے‘ سستا تیل خریدا۔ ایران دفاعی ہتھیار بنانے کے قابل نہیں تھا‘ امریکی پابندیوں نے اسے دفاعی پیداوار میں جدید ریاستوں کے برابر لاکھڑا کیا ہے۔ اس کا میزائل سسٹم اتنا جدید ہے کہ اسرائیل تک اس کی طاقت سے لرزنے لگا ہے‘ اس کا ایٹمی پروگرام ہتھیاروں کی تیاری سے چند قدم پر ہے۔ امریکا کی دوستی‘ مسلمان ریاستوں کیلئے ’’آکاس بیل‘‘ ہے یا ’’چڑیل کا جپھا‘‘۔ جو اس سے دور رہے وہی سلامت۔
رہ گیا انڈیا تو اس کی پروا 1948ء میں نہ تھی‘ جب پاکستان کے پاس فوج تھی‘ نہ ہتھیار‘ تب بھی نہرو بھاگ کر اقوام متحدہ گئے تھے۔ نہرو کا بھارت کچھ نہ بگاڑ سکا تو مودی کا انڈیا کس کھیت کی مولی؟


.
تازہ ترین