پشاور قدیم تہذیب و تمدن اور تاریخی حیثیت کا حامل شہر ہے۔ قلعہ بالا حصار سے 50فٹ کے فاصلے پر اندرون شہر پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان‘ واقع ہے۔ یہ مسجد 1670ء میں مغلیہ دورِ حکومت میں تعمیر کی گئی۔
تاہم، بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس کی تعمیر 1630ء میں عمل میں لائی گئی۔ شاہ جہان اور اورنگ زیب عالمگیر کے ادوار میں پشاور کے مغل گورنر مہابت خان نے رقم خرچ کرکے اپنی زیرِ نگرانی لاہور کی شاہی مسجد کی طرز پر اس کی تعمیر کروائی تھی۔ اسی وجہ سے یہ مسجد ان کے نام سے ہی منسوب ہے۔
لاہور کی شاہی مسجد اور وزیر خان مسجد کے بعد یہ برصغیر پاک و ہند کے شمال مغربی علاقے میں مغلیہ طرز تعمیر کا اولین نمونہ ہے۔ 1834ء میں پشاور پر سکھوں کے قبضے کے بعد مسجد مہابت خان کے میناروں کو پھانسی گھاٹ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا، تاہم برطانوی دورِ حکومت میں اسے دوبارہ مسلمانوں کی عبادت کے لیے بحال کردیا گیا۔
پشاور کے قدیمی گنجان آباد علاقے میں تعمیر شدہ یہ مسجد 30ہزار اسکوئر فٹ رقبے پر محیط ہے۔ مسجد میں داخلے کے لیے دو دروازے ہیں، ایک دروازہ اندرون شہرکے بازار (جیولری مارکیٹ) اور دوسرا آساماہی روڈ کی جانب کھلتا ہے۔
مسجد کے سامنے کا حصہ سفید سنگ مرمر کا بنا ہواہے۔ مسجد کا صحن 35میٹر لمبا اور تقریباً 30 میٹر چوڑا ہے، جس کے وسط میں ایک بہت بڑا حوض اور وضو خانہ بنایا گیا ہے جبکہ بیرونی دیواروں پر کمروں کی ایک قطار ہے۔ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے مرکزی دالان مغرب کی طرف واقع ہے، جسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
بلند میناروں اور سفید گنبدوں والی اس شاہکار مسجد کی چھت پر مجموعی طور پر 7گنبد تعمیر کیے گئے ہیں، جن میں سے3کافی بڑے ہیں اور درمیان والا گنبد سب سے بڑا ہے۔ مسجد کے دو 34میٹر بلند و بالا میناروں کے درمیان 6چھوٹے آرائشی مینار بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔
مسجد کے میناروں میں چھتری نما گنبد بنائے گئے ہیں جبکہ ان کے چھجوں کے نیچے لکڑی سے سپورٹ فراہم کی گئی ہے۔ چھت کی اونچائی بیرونی کناروں سے بڑھتے ہوئے مرکز کی طرف جاتی ہے۔ مسجد کی چھت کے اوپر سامنے کی جانب کناروں پر چھوٹے چھوٹے کئی گنبد ایک قطار میں بنائے گئے ہیں۔
مسجد کے مرکزی حصے میں داخلے کے لیے پانچ محرابیں بنائی گئی ہیں۔ درمیان والی محراب میں مغل طرز کا مخصوص محراب خانہ نمایاں ہے جبکہ اس کے دائیں اور بائیں جانب والی محرابوں کو فارسی اور وسط ایشیائی انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ان پانچوں محرابوں کے اندر اسی طرح کی چھوٹی محرابیں بنائی گئی ہیں اور ہر محراب کے اوپر ایک قطار میں 7چھوٹی بڑی محرابیں بھی نظر آتی ہیں۔ درمیان والی تین مرکزی محرابوں کو مکرنوں سے آراستہ کیا گیا ہے، جبکہ کونوں والی دونوں محرابوں کو غالب کاری سے سجایا گیا ہے۔
نماز کی جگہ کی اندرونی چھت کو سرخ رنگ سے جیومیٹریکل ڈیزائن اور پھولوں کے خوبصورت نقوش سے مزین کیا گیا ہے۔ مسجد کی دیواروں اور گنبدوں کو کاشی کاری، نقش و نگاری اور مرقع نگاری سے مزین کیا گیا ہے، جو مغلیہ دور کےفنِ تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔ مسجد کے اندرونی حصے کو رنگ برنگی نقش و نگاری سے سجایا گیا ہے۔ مسجد کی ڈیوڑھی پر بھی اوپری خم کی جانب پودوں کے نقوش بنے ہوئے ہیں جو بادشاہی مسجد کے سبز نقشوں کے برعکس مختلف رنگوں کے ہیں۔
مسجد کے داخلی اور بیرونی حصے پھولوں کے نقوش اور قرآنی خطاطی سے آراستہ ہیں۔ تاہم، وقت کی ستم گری کے باعث اس کی دیواروں اور دروازوں پر ہنرمندوں کی مہارت کے نقوش اب دھندلا چکے ہیں اور کاریگری کے حسین نمونے مٹتے جارہے ہیں۔ مغلیہ فنِ تعمیر کا اظہار مسجد میں استعمال ہونے والے رنگوں اور ڈیزائنوں سے جھلکتا ہے، جو اس تعمیراتی شاہکار میں کیے گئے کام میں ظاہر ہوتا ہے۔
1982ء میں حکومت نے 350 سال قبل مغلیہ دورِحکومت میں تعمیر کردہ اس مسجد کو قومی ورثہ قرار دے کر محکمہ اوقاف کے حوالے کیا، جس نے اس کی تزئین و آرائش کا بیڑا اٹھایا۔ اکتوبر 2015ء میں کوہ ہندو کش کی جانب سے آنے والے زلزلہ کے باعث مسجد کے ایک مینار کو شدید جبکہ دوسرے کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔
تاہم، تاریخی شہر کی سب سے بڑی مسجد آج بھی نہ صرف ایک شاندار مغل فنِ تعمیر کے طور پر فخر کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ یہ مغل بادشاہ کے مذہب سے لگاؤ کی علامت بھی ہے۔ مسجد مہابت خان پاکستان کے چند اہم ترین تاریخی مقامات میں سے ایک ہے پشاور آنے والے بیشتر سیاح اس خوبصورت مسجد کو دیکھنے کے لیے ضرور آتے ہیں۔
سفید مسجد
اسلامیہ کالج پشاور کی عمارت سے منسلک انیسویں صدی کی ایک قدیم مسجد واقع ہے۔ سفید مسجد مغل اور برطانوی ادوار کے طرزِ تعمیر کا شاندار نمونہ معلوم ہوتی ہے۔ سفید سنگِ مرمر سے بنی مسجد (سفید مسجد) کو انیسویں صدی کے آغاز میں جدید علوم کا مرکز سمجھاجاتا تھا۔ مسجد مہابت خان کے بعد مغل دور میں تعمیر ہونے والی یہ سفید مسجد بھی سیاحوں کے لیے بھرپور کشش رکھتی ہے۔