• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں جب فضل الٰہی چوہدری صاحب صدر مملکت تھے، تو ان کی قیام گاہ کی بیرونی دیواروں پر ایک صبح ”فضل الٰہی چوہدری کو رہا کرو“ کا مطالبہ تحریر کیا ہوا پایا گیا۔ سرکاری ہرکاروں نے اسے صاف کر دیا۔ اگلی صبح دیواروں پر یہ تحریر پھر موجود تھی۔ حکومتی کارندوں نے اسے کسی دیوانے کی مستانہ سی شرارت سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور کسی خاص کھوج کی ضرورت محسوس نہ کی، لیکن جب مسلسل یہ ”حرکت نازیبا“ ہونے لگی تو تشویش لاحق ہوئی کہ آخر یہ کون شرپسند ہیں، جو مملکت کے اس بے اختیار و بے ضرر صدر کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ چونکہ یہ تحریر رات کی تاریکی میں لکھی جاتی تھی لہٰذا اندھیرا پھیلتے ہی خفیہ والوں نے ”جائے وقوعہ“ کی نگرانی شروع کر دی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ”تہجد“ کے وقت ایک شخص جو چادر سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے تھا، خراماں خراماں مقام مقصود پر پہنچا اور دلی آرزو دیوار پر منتقل کرنے لگا۔ خفیہ والوں نے لپک کر ”ٹارگٹ“ کو پکڑ لیا اور ساتھ لے جانے لگے۔ کچھ پیش قدمی کے بعد جب نقاب کشائی ہوئی تو چراغ تلے صدر مملکت کا چہرہ بے بسی کی تصویر بنے موجود تھا! عوامی دور میں گھٹن کے ماحول کو اجاگر کرنے کی خاطر مشہور کی گئی یہ کہانی ناچیز کو یہ خبر پڑھ کر یاد آئی کہ ”صدر آصف زرداری اتوار (16 جون) کی شب پروٹوکول کے بغیر گاڑی چلاتے ہوئے کلفٹن میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں پہنچے اور عام شہریوں کے درمیان بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا“۔ قبل ازیں ایک اور خبر کے مطابق صدر مملکت نے بلاول ہاؤس سے متصل شاہراہ کے ایک ٹریک کو بند کئے جانے اور اس پر دیو قامت دیواریں تعمیر کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ٹریفک کیلئے کھولنے کے احکامات صادر کئے۔ (اگرچہ اس پر ہنوز عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے) سڑک کے طول و عرض پر یہ دیواریں ہفتہ دس دن قبل اچانک برسرزمین نہیں آئیں بلکہ پانچ سال قبل سیکورٹی خدشات کے پیش نظر بلاول ہاؤس کو قلعہ نما بنا دیا گیا تھا۔ نہ جانے صدر مملکت کو یہ سب کچھ پانچ سال بعد کیوں نظر آیا!؟ ان سوالوں کا مختصر جواب دونوں خبروں کو پڑھنے کے بعد یہ ہو سکتا ہے کہ صدر مملکت کو اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ وہ خطرات جو پانچ سال سے انہیں لاحق تھے، ٹل گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف وہ اپنی رہائش کے باہر غیر معمولی حفاظتی حصار ہٹانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے ریسٹورنٹ بھی پہنچ جاتے ہیں۔ باالفاظ دیگر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی انہیں اس خوف سے رہائی نصیب ہو گئی ہے جس کے سبب وہ ایوان صدر میں اپنی خواب گاہ تک میں مبینہ طور پر اپنے ساتھ ہتھیار رکھنے پر مجبور تھے۔
اب یہ حسن اتفاق ہے کہ پیپلزپارٹی کے ایک صدر اپنی ہی حکومت میں طاقتور وزیراعظم سے رہائی کے خواستگار نظر آتے ہیں تو دوسرے صدر اختیارات ازخود وزیراعظم کو منتقل کرنے کے بعد بھی طاقتور رہتے ہیں لیکن یہ طاقت پارٹی کی حکومت کے جاتے ہی جانے سے وہ خود کو آزاد خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں عوامی توسط سے جو اختیارات پاتے ہیں وہ خوف پال لیتے ہیں، پھر اگر وہ اختیارات اپنے پاس رکھنے پر بضد ہو جاتے ہیں تو تختہ دار پر جھول جاتے ہیں یا لیاقت باغ کے گل و رخسار خون سے لالہ زار کر جاتے ہیں۔ بنت ملت بے نظیر نے وہی کیا جو قبل ازیں شہید ملت لیاقت علی خان کر چکے تھے۔
وطن عزیز میں اقتدارکی غلام گردشوں کی کہانیاں اتنی پُر فریب اور ہوش ربا ہیں کہ سمجھ آتے آتے جوانیاں ڈھل جاتی ہیں۔ آصف زرداری صاحب چونکہ خود ان ایوانوں کے ایک کردار ہیں لہٰذا خوب اور بروقت سمجھ پائے۔ اپنا خوف دوسروں کے حوالے کر کے ہار جانا بھی ہار نہیں ہے اور ہار بھی ایسی کے مخالف کیلئے شانے یوں چت کر دیئے کہ کسی کو نورا کشتی کا گمان بھی نہ ہوا اور شکست پر رنجیدہ جیالوں کا غصہ ٹھنڈا پڑ جانے پر کہہ بھی دیا کہ یہ قومی و بین الاقوامی اداروں کی سازش تھی…!یہ جو ماہر نفسیات ان دنوں اس الجھن کی سلجھن کی تلاش میں ہیں کہ ہشاش بشاش، چمکتے مہکتے میاں نواز شریف کو آخر کیا ہو گیا کہ اقتدار ملتے ہی گم سم رہنے لگے، تو ماہرین کو اس خیال پر بھی توجہ مرکوز کر دینی چاہئے کہ کہیں یہ وہ خوف تو نہیں تھا کہ جس کے سر سے اترتے ہی صدر مملکت باربی کیو سے لطف اندوز ہونے ریسٹورنٹ پہنچ گئے!
محترمہ بی بی شہید نے ایک تقریر کے دوران ایک جملہ بہت جذباتی انداز میں ایک ایک لفظ کو جھنجھوڑتے ہوئے ادا کیا تھا۔ ”یہ اقتدار بھی کیا چیز ہے“۔ بی بی نے درحقیقت دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا کہ یہ ایک ایسا طلسم کدہ ہے کہ جس کی کشش ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچنے کے بعد جیسے اس کی مرضی اپنی نہیں رہتی، وہ ایسی گروہی شے بن جاتی ہے جو تب واپس ملتی ہے جب اس کوچے سے رخصتی کا پورا پورا اہتمام ہو چکا ہوتا ہے۔ ان تمام تلخ حقائق کے باوجود پھر بھی جنت سے بھی زیادہ لوگ یہاں آنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ واقعی اقتدار بھی کیا چیز ہے! یہ درست ہے کہ اس کوچے میں سب ہوس کی خاطر نہیں آئے، کچھ وہ حق لوٹانے بھی آئے جو ان پر اپنے خدا، مٹی اور عوام کا قرض تھا، لیکن وہ بھی لٹ کر چلے گئے۔ قوم کی دعائیں ہیں کہ موجودہ حکمراں( جب بھی لوٹیں تو سرخرو ہو کر اور ایک ایسی روایت کی داغ بیل ڈالتے ہوئے امر ہو جائیں کہ پھر یہاں پر آنے والا ایوان اقتدار میں عوامی آدرشوں پر مبنی اس مرضی سے ہم آغوش رہے جو وہ اپنے ساتھ لایا ہو۔آسان الفاظ میں وہ نمائندے جو عوامی قوت کے بل بوتے پر حکومت میں پہنچ جاتے ہیں، ملکی و بین الاقوامی طاقتیں انہیں مطیع رکھنے کی خاطر تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لاتی ہیں۔ ایک زمانے میں سب کچھ امریکہ بہادر کی مرضی کے تحت ہوتا تھا، اب بھی ہوتا ہے، لیکن اس میں ”کئی دوست ممالک“ نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے بلکہ ”ڈیل“ ڈول انہی کا مزین کردہ ہوتا ہے۔ یہ بات جاننے والے ہی جانتے ہوں گے کہ نئی حکومت آنے کے بعد این آر او رنگ کا کوئی معاہدہ اب بھی زندہ ہے یا کیڑوں، چوہوں نے خوراک بنا لیا ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ بے باک میڈیا کے ہوتے ہوئے کوئی راز خال خال ہی طشت ازبام ہونے سے رہ جاتا ہے۔ ہاں کسی راز کو راز رکھنے کیلئے یا تو صدر مملکت کی طرح صبر و تحمل درکار ہے اور پھر اگر یہ راز راز نہ رہے تو اسے بے اثر بنانے کے لئے صدر صاحب ہی کا حوصلہ کام آ سکتا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، لیکن یہ صدر صاحب ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ انہوں نے میڈیا کی ہر جائز و ناجائز تنقید کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ ان کے عہد حکومت کو جس طرح میڈیا نے خنجر کی نوک پر رکھا، کوئی اور حکومت ہوتی تو درد سے چلا اٹھتی لیکن یہ صدر مملکت ہی کا ظرف تھا کہ تمام تر میڈیا ڈرون حملوں کے باوجود پیپلز پارٹی مسکراتی رہی۔ اب مسلم لیگ اور تحریک انصاف ان حملوں کی زد پر آ گئی ہیں۔ تحریک انصاف نے تو خیر یوٹرن لے لیا ہے لیکن مسلم لیگ کا معاملہ دوسرا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وہ باسی جنہوں نے نیٹو سپلائی کے خلاف عمران خان کے ہمراہ پشاور میں دو روز تک دھرنا دیا تھا، وہ تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے نعرے پر عملدرآمد کے خواہاں تھے لیکن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی والے 13 روز تک وزارتوں کی بندر بانٹ پر ایسے گتھم گتھا ہو گئے کہ نیٹو سپلائی، ڈرون گرانے، اسلامی نظام لانے اور پختونخوا کو ماڈل صوبہ بنانے کے تمام وعدے ہی بھول گئے۔بات یہ ہو رہی تھی کہ صدر مملکت کیخلاف جس طرح میڈیانے ہر غلطی پر ان کا احتساب کیا ہے شاید وہ نئی حکومت کے احتساب سے بھی نہیں چوکے گا۔ پیپلزپارٹی بالخصوص صدر مملکت نے جس طرح مختلف محاذوں پر مختلف طاقتوں، عدلیہ، ایجنسیوں اور میڈیا سے الجھے بغیر مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ امور مملکت چلائے، اس سے وہ ایک ایسی مشکل روایت ڈال گئے جس کی لاج رکھنا یقینا بڑی آزمائش ثابت ہو گی۔
تازہ ترین