’’تھائ لینڈ‘‘ کے معنی ’’آزاد لوگوں کے رہنے کی جگہ‘‘ کے ہیں، اس کا پرانا نام سیام تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ مُلک کبھی بھی کسی کا غلام نہیں رہا۔ اس کا دارالحکومت، بنکاک سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ ہم، تھائی لینڈ کے شہر بنکاک جانے کے لیےکراچی کےجناح ٹرمینل سے عمان ائرلائن کے ذریعے روانہ ہوئے، لیکن یہ فلائٹ بنکاک تک نہیں جاتی، اس کی منزل مسقط ائرپورٹ تھی۔ مسقط ائرپورٹ پر ہمیں تقریباً ایک گھنٹہ رکنا تھا۔
اس دوران ہمیں ائرپورٹ دیکھنے کا موقع ملا، انتہائی خوب صورت، کشادہ اور جدید سہولتوں سے مزیّن۔ جلد ہی کنیکٹنگ فلائٹ مل گئی، یہ عمان ائر کی دوسری فلائٹ تھی۔ اس کے ذریعے چھے گھنٹے کے طویل سفرکےبعد بنکاک کےسوانا بھومی انٹرنیشنل ائرپورٹ پہنچے اور پھر وہاں سے پتایا کے لیے روانہ ہوئے۔ بنکاک سے پتایا کا سفر تقریباً 3گھنٹے کا ہے۔ پتایا ائرپورٹ سے سیدھے CITRUS &GRANہوٹل گئے، جہاں ہمارا قیام و طعام تھا۔
شام کو ہوٹل کی انتظامیہ سےتفریحی مقامات سے متعلق معلومات حاصل کیں، تو بتایا گیا کہ فی الحال یعنی شام کے وقت ’’الکزار‘‘ چلےجائیں، وہیں دل چسپ تفریحی پروگرامز سےلطف اندوزہوسکتے ہیں۔ الکزار پہنچے، تو ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، سیّاحوں اور مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد دل چسپ پروگرامز دیکھنے آئی ہوئی تھی۔ وہاں سے واپسی ہوئی، تو رات خاصی بیت چکی تھی۔
اگلی صبح ناشتے کےبعد کورال آئی لینڈکےلیے روانہ ہوئے۔ کورال آئی لینڈ ایک دل کش تفریحی جزیرہ ہے، جہاں پیرا شوٹ رائیڈنگ، انڈر واٹر سوئمنگ اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے مواقع موجود ہیں۔ پیرا شوٹ رائیڈنگ ایک انتہائی دل چسپ تفریح ہے، اس میں اُڑان بھرنے والوں کو سیفٹی جیکٹس کے ذریعے پیرا شوٹ سے باندھ کر کافی اونچائی تک لےجایاجاتا ہے، پھرنیچے لاکر پانی میں متعدد ڈُبکیاں لگوانے کے بعد واپس پلیٹ فارم پر اتار دیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ایک کشتی کے ذریعے آپریٹ اور کنٹرول ہوتا ہے۔ مگر اس خوف ناک رائیڈنگ سے ہمارا تو دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
بہرحال، یہاں سے دوسرے کنارے پہنچ کر پائن ایپل جوس پی کر دل کی دھڑکنوں کو قابو کیا۔ یاد رہے، یہاں تازہ انناس سے فریش جوس بنایا جاتا ہے، جس کا اپنا ہی ذائقہ ہے۔ گرمی کی شدّت کم کرنے اور پیاس بجھانے کے لیے زیادہ تر لوگ کچّے،ہرے ناریل کا پانی پی کر دل کو راحت و تقویت پہنچاتے ہیں۔ ناریل اور انناس کی بھرپور پیداوار کے باعث جگہ جگہ یہی دو پھل فروخت ہوتے نظر آئے، جب کہ ہوٹلوں میں جا بہ جا فروخت کے لیے رکھا ہوا پپیتا، سرخ تربوز کی مانند لگا۔ ان دنوں وہاں آم بھی دست یاب تھے،جو کاٹ چھانٹ اور چھیل کر خوب صورت پیکنگ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ لگ بھگ ایک کلو آم 60بھات یعنی تین سو پاکستانی روپے میں فروخت ہوتےہیں۔ مگر اپنےملک کے آموں کا تو مزہ اور ذائقہ ہی کچھ اور ہے۔
کورال آئی لینڈ میں بھرپور تفریح کے بعد ہوٹل پہنچے تو کافی تھک چُکے تھے، دل آرام پر مائل تھا، جب کہ ہمیں اُسی روز پتایا سے بنکاک واپس جانا تھا۔ بنکاک میں ایمبیسیڈر ہوٹل پہنچے، تو شام ہوچکی تھی۔28منزلہ عمارت پر مشتمل اس حسین ہوٹل کے تھرڈ فلور پر ایک وسیع و عریض سوئمنگ پول بھی ہے۔ ہوٹل پہنچ کر آرام کو ترجیح دیتے ہوئے بستر پر اِس طرح دراز ہوئے کہ پھر صبح ہی آنکھ کُھلی۔ اُسی روز وہاں کے خُوب صُورت ساحلی مقام DHOE CRUISE کا پروگرام تھا۔
سیّاح گھنٹوں قبل ٹکٹ لےکر شام ڈھلے کروز کے لیے جمع ہوجاتےہیں، جہاں رنگ برنگے جہاز لوگوں کو بٹھا کر ایک مختصر سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ ایک کنارے سے دوسرےاور واپسی تک کا یہ سفر تقریباً ایک سےڈیڑھ گھنٹے پرمحیط ہے۔ جہاز جیسے ہی اسٹارٹ ہوا، خراماں خراماں چلنےلگا، لوگوں کا ہلّا گلّا، موج مستی بھی شروع ہوگئی۔ کچھ دیر بعد مقامی موسیقی کےساتھ یک دَم پاکستانی اور بھارتی گانوں کی آوازیں سماعتوں سے ٹکرائیں، تو حیرت ہوئی۔ حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائےتو ملائیشیا اور دبئی کےمقابلے میں بنکاک کا کروز ہمیں کچھ زیادہ متاثر نہ کرسکا۔
تھائی لینڈ سائوتھ ایشیا کا ایسا مُلک ہے، جس پر کبھی کسی یورپی مُلک کا قبضہ نہیں رہا۔ اس کے چاروں طرف میانمار، کمبوڈیا، ملائیشیا اور لائوس کے بارڈرز لگتے ہے۔6 کروڑ اسّی لاکھ نفوس پر مشتمل یہ دنیا کا بیسواں اور رقبے کے لحاظ سے پچاسواں بڑاملک ہے۔ تھائی لینڈ، ساحلوں کے خوب صورت مناظر، شان دار مجسّموں، شاہی محلّات، نہروں اور پانی پر بنے قصبوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
یہاں کی قومی زبان تھائی، کرنسی تھائی بھات ہے اور تقریباً 96فی صد افراد بدھ مت کے پیروکار ہیں، جب کہ چار فی صد مسلمان اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آباد ہیں۔ اس کی آمدنی کے ذرائع ماہی گیری، قیمتی پتھروں کی برآمدات اور ٹورازم ہیں۔یہاں کے یاقوت اور نیلم دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک کروڑ سے زائد سیّاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ بنکاک،تھائی لینڈکانہ صرف خوب صورت شہر بلکہ دارالحکومت بھی ہے،پھرمختلف اشیاء کی خرید و فروخت اور کاروباری لحاظ سے بھی شہرت کا حامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے’’شاپنگ پیراڈائز‘‘ بھی کہاجاتاہے۔ اِسے’’سٹی آف ٹیمپل‘‘ بھی کہاجاتاہےکہ یہاں سڑک کنارےایک مندر موجود ہےاوریہیں بدھا کاایک طویل القامت مجمسّہ بھی نصب ہے، مکمل سونے سے بنے اس گولڈن بدھا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بدھا کا دنیا کا سب سے بڑا مجسّمہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے سونے کا وزن پانچ ہزار پانچ سو کلوگرم ہے۔ اس کے علاوہ جتنے سفید ہاتھی تھائی لینڈ میں نظر آتے ہیں، کہیں نظر نہیں آتے اور یہی اس ملک کا قومی جانوربھی ہے۔
یہاں ٹیکسی کا کوئی ایک رنگ نہیں، سڑکوں پرجا بہ جا رنگ برنگی ٹیکسیاں نظر آتی ہیں۔ نیز، بنکاک کو ’’سٹی آف اسمائیل‘‘ یعنی مُسکراہٹوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ یہاں کے لوگ ہر وقت ہنستے مُسکراتے نظر آتے ہیں۔یادرہے، بنکاک کا نام ان ہی اچنبھوں، عجوبوں، خوب صورتیوں اور مسکراہٹوں کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
یہاں اپریل کامہینہ عموماً گرم ترین ہوتا ہے۔ گرمی سے پریشان حال لوگ ہرسال تھائی کیلنڈر کے مطابق سالِ نو کے آغاز پر’’ سونگ کران فیسٹیول‘‘ انتہائی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اس موقعے پربچّے، بڑے اور خواتین ہاتھوں میں واٹرگنز لیے واٹر فائٹ کرتےدکھائی دیتےہیں اورایک دوسرے کو پوری طرح پانی سے نہلا دیتے ہیں۔
اتفاق سے ہم نے اُن دنوں بنکاک میں ہونے کے باعث لوگوں کو جوش و خروش سےواٹر فیسٹیول کاتہوار مناتے بھی دیکھا۔ اس موقعے پر دکانیں، شاپنگ مالزوغیرہ تین روز کے لیے بند کردیئےجاتے ہیں۔ جس طرح ہندو برادری دیوالی مناتی ہے اور ایک دوسرے پر رنگ پھینکتی ہے، اسی طرح یہاں کے لوگ ایک دوسرے پر اور سڑکوں سےگزرنےوالی گاڑیوں پر پانی پھینکتے ہیں۔ فیسٹیول کے دوران ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔
فیسٹیول کےموقعےپردکانوں پرخُوب واٹرگنز فروخت ہوتی ہیں، جن سےلوگوں پر پانی کی برسات کی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جن کے پاس پانی برسانے کی گنز نہیں ہوتیں، وہ گلاس اور دیگر برتنوں کے ذریعے پانی پھینک کر اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مختلف نوعیت کے ایونٹس کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے، جن کے مناظریہاں موجود سیّاحوں کے لیے بہت دل کش اور فرحت انگیز ہوتے ہیں اورہمارے لیے بھی یہ سفر بلاشبہ ایک سحر انگیز سیّاحتی سفر تھا۔