• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے حال ہی میں عزیزی اعزاز سیّد کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جس میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور عمران خان کا موازنہ کیا ہے، جو حیران کن ہے۔ جنہوں نے 70کا زمانہ دیکھا ہے وہ چاہے ذوالفقار علی بھٹو کے حامی ہوں یا مخالف ، اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے عالمی سطح پر تسلیم کئے جانے والے، عالمی امور کے مفکّر اور عہد ساز ’’ سیاسی جینئس‘‘ کا موازنہ ایک ایسے شخص سے کرنا انتہائی نا مناسب ہے جس کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی ، بذاتِ خود ابھی تک ایک بڑا سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی صلاحیتوں کا اعتراف دنیا کے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں اور مفکّرین نے کیا ہے جن میں عظیم مائوزے تنگ، چواین لائی ، احمد سوئیکارنو، جمال عبدالناصر ، جان ایف کینیڈی ، ہنری کسنجر ، یاسر عرفات ، کرنل قذافی، شاہ فیصل اور معروف فلاسفر سر برٹرینڈرسل شامل ہیں۔اپنے بیس سالہ سیاسی کیرئیر کے دوران بحیثیت وزیر خارجہ جہاں وہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی اور چین کے ساتھ دوستی کے بانی تھے۔ وہیں بطورِ اپوزیشن لیڈر جنرل ایوب خان سے لیکر جنرل ضیا جیسے فوجی ڈکٹیٹر وں کے خلاف طویل جدوجہد کی اور اسی جدوجہد کے دوران اپنی جان بھی قربان کردی، وہ عالمی سطح کے مدّبر اور مصنف بھی تھے۔جس کا ثبوت انکی مختلف بین الاقوامی اور قومی امور پر لکھی ہوئی متعدد تصانیف ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں ان کی تقاریر آج بھی اقوامِ متحدہ کی بہترین تقاریر میں شامل ہیں۔انہیں جب پاکستان کی حکومت ملی تو ملک دولخت ہوچکا تھا اور مغربی پاکستان کا بھی پانچ ہزار مربع میل سے زیادہ رقبہ اور نوے ہزار جنگی قیدی بھارت کی تحویل میں تھے اور دنیا بقیہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں مایوس دکھائی دے رہی تھی۔ یہ ان کی ولولہ انگیز قیادت اور بے پناہ سیاسی بصیرت کا کمال تھا کہ انہوں نے بقیہ پاکستان کو نہ صرف اپنے پائوںپر کھڑا کر دیا بلکہ چند سال کے اندر ہی 74 میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے اسے مسلم دنیا کا لیڈر بنا دیا۔ انہوں نے اپنے 5سالہ مختصر دورِ حکومت میں73 کے متفقہ آئین اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے لیکر مزدوروں کسانوں اور طالب علموں سمیت ہر طبقہ زندگی کے افراد کی فلاح و بہبود کے لئے جو اقدامات کئے اسکی آج تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قائدِ اعظم کے بعد پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے جن کی سزائے موت کے خلاف خود سوزیاں کی گئیں اور لاکھوں افراد نے قیدوبند کی صعوبتیں اور دیگر مصائب بھگتے کیونکہ انہوں نے پہلی مرتبہ بے زبانوں کو زبان اور عزّتِ نفس دی تھی ۔ سیاست کو ڈرائنگ روموں سے نکال کر کھیتوں اور کھلیانوں میں پہنچایا تھا اور عوام کے لئے لیڈروں کے جان قربان کرنے کی رسم ڈالی تھی۔ جسے ان کے پورے خاندان نے نبھایا۔ تاریخ دو طرح کے لیڈروں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ ایک کسی ملک کے بانی کو اور دوسرے ریفارمریا مصلح کو قائدِ اعظم پاکستان کے بانی اور قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ریفارمر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اب ایسے لیجنڈسیاسی مدّبر اور لیڈر کا موازنہ ایک ایسے شخص سے کرنا حیران کن نہیں تو اور کیا ہے جو سِرے سے سیاست دان ہے ہی نہیں ۔ جس کی وجہ شہرت کھیل ہے جسے اُن طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، جن کا بذاتِ خود سیاست میں حصّہ لینا اپنے حلف سے روگردانی ہے۔ اور جسکی سیاسی بصیرت کے مظہر اس کے ہر روز کے یوٹرن ہیں۔اعزاز سیّد نے فوجی ڈکٹیٹروں کی سیاستدانوں کو بدنام کرنے والی منطق دہراتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے ذریعے سیاست میں آئے،سوال یہ ہے کہ جس ملک میں شروع سے ہی سیاست کے دروازوں پرپہرہہو۔ وہاں سیاست میں داخلے کا اور کون سا راستہ رہ جاتا ہے؟ بھٹو صاحب نے تو جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلا کر اس الزام کا بھی کفّارہ ادا کردیا تھا کہ وہ ایک ڈکٹیٹر کی کابینہ میں شامل تھے جبکہ میاں نواز شریف جنرل ضیا کی موت کے 12 سال بعد تک بھی جنرل ضیا کے مشن پر کاربند رہنے کا عزّم کرتے رہے ۔ جہاں تک شیخ مجیب الرّحمان کو اقتدار منتقل نہ کرنے کی بات ہے تو اس کے لئے جنرل یحییٰ کا 30مارچ 1970 کا جاری کردہ ایل ایف او پڑھ لینا ہی کافی ہے جو صاف بتاتا ہے کہ جنرل یحییٰ کا پہلے ہی سے اقتدار منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ ویسے یہ بھی آمرانہ سوچ کا کمال ہے کہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ایک ڈکٹیٹر ہو اور اس کے گناہوں ، غلطیوں اور اعمال کا سارا ملبہ سیاستدانوں پر تھوپ دیا جائے۔ اعزاز سیّد نے اپنے کالم میں بھٹو صاحب اور اپوزیشن کے درمیان چپقلش اور محاذ آرائی کا ذکر تو کیا ہے ۔ لیکن اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس سب کے باوجود انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر اس ملک کو وہ متفقہ آئین دیا، جو ہر دور کے ڈکٹیٹروں اور ان کے ہمنوائوں کے پائوں کی زنجیربنا ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کوئی فرشتہ نہیں تھے۔ ان میں بھی بشری خامیاں اور کمزوریاں تھیں لیکن ان کے گرانقدر کارناموں اور انکی دلیرانہ جمہوری جدو جہد کو اجاگر کرنے کی بجائے ، انہیں مطعون کرنا اور اپنے ناکارہ مہروں کے ساتھ ان کا موازنہ کرنا ہماری غیر جمہوری طاقتوں کی پرانی روایت ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہے۔ ایک طرف بھٹو کو ذہین و فطین قرار دینے اور پھر اس کا موازنہ عمران خان سے کرنے پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے :

یہ کس کو کس سے ملا رہے ہو

یہ کیا ستم ہے جو ڈھارہے ہو

تازہ ترین