پروفیسر اعجاز احمد فاروقی
سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ
کورونا کےغیر معمولی حالات میں پاکستان سپر لیگ کے بقیہ 20 میچوں کا ابوظہبی منتقل ہونا ایک مشکل فیصلہ ہے۔اس کے باوجود امید ہے کہ اگلے دس ماہ میں انگلینڈ،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں شیڈول کے مطابق پاکستان آئیں گی اور آئی سی سی پاکستان کو اپنے کچھ ٹورنامنٹ کی بھی میزبانی دے گا۔
چند ماہ قبل جب مجھے احسان مانی نے نیشنل اسٹیڈیم میں پی ایس ایل میچ دیکھنے کے لئے مدعو کیا تو مجھے اپنے ملک کے آباد گراونڈ دیکھ کر خوشی ہوئی تھی ۔لیکن شائقین اب اداس ہیں کہ لیگ ایک بار پھر بیرون ملک چلی گئی ہے۔
شائد اس فیصلے کے لئے ہمیں وقت کا انتظار کر لینا چاہیے کہ کراچی سے ابوظہبی پاکستان سپر لیگ کو منتقل کا فیصلہ درست ہے۔میں جس زمانے میں پی سی بی بورڈ آف گورنرز میں تھا تو میں نے کئی ایسی میٹنگ اور بریفنگ میں شرکت کی جس میں شہریار خان اور نجم سیٹھی بتاتے رہے کہ پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کی واپسی کس طرح ہوسکتی ہے۔پاکستان سپر لیگ کا پودا بھی جن لوگوں نے لگایااس کی پلاننگ میں میں بھی پی سی بی میٹنگز کا حصہ رہا۔
چند سال قبل پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال میں بہتری آئی اسی دوران پاکستان سپرلیگ کے کامیاب انعقاد نےغیر ملکیوں کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ عمران خان کی حکومت کے آنے کے بعد احسان مانی نے قوم کو خوش خبری سنائی کہ اب پاکستان کی کوئی ہوم سیریز بیرون ملک نہیں ہوگی۔
اس فیصلے سے پاکستان کا سافٹ ایمیج دنیا کے سامنے آیا ،ورلڈ الیون،سری لنکا،جنوبی افریقا،زمبابوے اور بنگلہ دیش کی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا۔پی ایس ایل کی وجہ سے آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے موجودہ اور سابق کھلاڑیوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔اب پی سی بی نےسوچ وبچار کے بعد اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ملتوی ہونے والی پی ایس ایل 6 کے بقیہ20میچز ابوظہبی میں کھیلے جائیں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ مارچ میں یہ ایونٹ کراچی میں ملتوی ہونے کے بعد اسے جون میں اس لئے کرانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے فوراً بعد پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ کے دورے پر جانا ہے لیکن اب دوسری مرتبہ لیگ ملتوی ہونے کی صورت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا کہ وہ اسے ری شیڈول کرے کیونکہ اس سال اس کا انٹرنیشنل کلینڈر مصروف ہے۔اکتوبر میں اسے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کھیلنی ہے۔ پھر اکتوبر نومبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو گا اس کے بعد پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش جائے گی، ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئے گی۔اس صورتحال میں جنوری میں یہ لیگ ممکن ہو سکتی تھی ۔ ستمبر میں بھی پاکستانی ٹیم کو افغانستان کے خلاف صرف محدود اوورز کی سیریز کھیلنی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے ملتوی شدہ بیس میچوں میں کسی قسم کی سیفٹی بے ضابطگی سے بچنے کے لیے ایک برطانوی کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں کہ وہ ایک مؤثر بائیوسکیور ببل تیار کرے۔یہ وہی کمپنی ہے جس نے گذشتہ سال دبئی میں کھیلی گئی آئی پی ایل میں بائیو سکیور ببل تیار کیا تھا۔کورونا کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس کمپنی کی خدمات کراچی میں حاصل کرلینے کی ضرورت تھی۔
اب پاکستان کرکٹ بورڈ کا مقصد یہی ہے کہ مارچ میں لیگ جس انداز سے ختم ہوئی اس صورتحال سے بچا جائے کیونکہ ان14 میچوں کے دوران سیفٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے تھے جن میں ایک کپتان اور کوچ کا اپنے فرنچائز مالک سے ملنا جو بائیو سکیور ببل کا حصہ نہیں تھے۔کھلاڑیوں کا ہوٹل میں باہر سے کھانے منگوانا، سالگرہ منانا، فیملیز سے ملاقاتیں کرنا، باہر کے لوگوں کے ساتھ سیلفیاں بنوانا جیسے واقعات شامل ہیں۔
افسوس ناک پہلو ہے کہ آج تک اس کمیٹی کی رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا تاہم کمیٹی نے ایونٹ کے دوران متعدد نوعیت کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی۔پاکستان سپر لیگ کا 2016 میں آغاز ہوا۔ لیگ کے پہلے ایڈیشن کے تمام24،دوسرے ایڈیشن کے 23، ایڈیشن 2018 کے 31 اور ایڈیشن 2019کے26 میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے۔ شیخ زید اسٹیڈیم ابوظہبی اس سے قبل بھی پاکستان سپر لیگ کے 4 میچز کی میزبانی کرچکا ہے۔لیگ کا پانچواں ایڈیشن مکمل طور پر پاکستان میں کھیلا گیا۔
اب اسی امید اور دکھی دل کے ساتھ لیگ کو دوبارہ بیرون ملک بھیج رہے ہیں کہ یہ فیصلہ عارضی ہو اس سال دوبارہ پاکستانی میدان آباد ہوں اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے جن ذمے داروں کی نشاندہی کی تھی ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔امارات میں سخت گرم موسم سے کھلاڑیوں کو بھی ڈی ہائیڈریشن سے بچانا ہوگا کیوں کہ گرمی سے اہم کھلاڑی فٹنس مسائل سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں۔