• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

نیشنل کالج آف آرٹس (میو اسکول آف آرٹس) والےٹولنٹن مارکیٹ میں جو کلچرل گارڈن بنا رہے ہیں‘ وہ پنجاب خصوصاً لاہور کی ثقافت اور تاریخ کا عکاس ہوگا۔ ہمارے خیال میں اس جگہ کو اب ٹولنٹن کلچرل گارڈن یا ٹولنٹن نمائش گاہ/ سینٹر/ مال کا نام دینا چاہئے کیونکہ اب یہاں مارکیٹ تو رہی نہیں، دوسرا ٹولنٹن مارکیٹ سے گول باغ ، وزیر خان کی بارہ دری اور پنجاب پبلک لائبریری تک کے تمام علاقے کو این سی اے کے سپرد کر دینا چاہئے اور یہاں صرف اور صرف لاہور کی پرانی تہذیب، ثقافت ،روایات اور رہن سہن دیکھا جائے اور اس سڑک کا نام نمائش روڈ یعنی ایگزیبیشن روڈجوکہ اس کا قدیم نام تھا، رکھ دینا چاہئے۔ٹولنٹن مارکیٹ سے تو ہمیں کچھ خاص ہی لگائو رہا ہے۔ ہم اپنے اساتذہ پروفیسر اکرام ربانی(حال لاہور) پروفیسر جاوید اکرام شیخ (حال امریکہ) اور اپنےدوستوں کے ساتھ ہفتے میں چار، پانچ مرتبہ ضرور یہاں جاتے تھے۔

یہاں کبھی بینڈ بھی تھا ۔یہ بینڈ مہاراجہ پٹیالہ کے دربار کا تھا جو ان کے دادا حاجی عبدالحمید پٹیالوی مرحوم نے شروع کیا تھا۔ لاہور میں سوہنی بینڈ بھی بڑا مشہور رہا ہے۔ ایک زمانے میں لاہور میں کوئی برات بینڈ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔ ایلیٹ کلاس کے لوگ پولیس اور فوج کا بینڈ بلواتے تھے۔ پھر فوجی بینڈ کو سویلین شادیوں میں جانے سے منع کردیا گیا۔ اب پتہ نہیں کیا صورت حال ہے۔ البتہ پولیس کابینڈ آج بھی شادیوں پرجاتا ہے۔

نیشنل کالج آف آرٹس (میو اسکول آف آرٹس)کے عقب میں نواز شریف کے تیسرے دور کے بعد بھی کافی عرصہ تک فوج کی ایک یونٹ کی بیرک اور دفاتر تھے اور ہم نے خود بھی وہ قدیم بیرک کئی مرتبہ دیکھی ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تاریخی بیرک کو محفوظ کرنے کی بجائے گرا دیا گیا۔ حالانکہ یہ سارا علاقہ پہلے انارکلی چھائونی کہلاتا تھا، یہ جگہ کالج کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ویسے تو اس کالج کو چیف منسٹرانسپکشن ٹیم کی عمارت بھی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ انار کلی چھائونی کے اس علاقے کو رسالہ بازار بھی کہا جاتا تھا۔ فوج کے دستوں کو رسالہ بھی کہتے ہیں ۔ جب انار کلی چھائونی کو یہاں سے میاں میرؒ چھائونی منتقل کیا گیا تو انگریزوں نے انار کلی بازار کو آباد کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو جتنی چاہے بڑی دکان بنا لے۔ زیادہ تر دکانیں ہندوئوں کی تھیں، مسلمانوں کی چند ایک دکانیں تھیں۔ اس کا ذکر پھر کریں گے۔ بیلی رام بلڈنگ، بمبئی کلاتھ ہائوس، بمبئی میوزک ہائوس، بھلہ شوز، کرنال شوز، کالج شوز، یہ دکانیں کبھی ہم نے بھی دیکھی تھیں۔ ان دکانوں کے بورڈ تو ایک مدت تک لگے رہے۔ بیلی رام ادویات کا کاروبار کرتا تھا، بہت بڑی بلڈنگ تھی جس پر بڑا سا بیلی رام لکھا ہوا تھا جو ہم نے کئی مرتبہ دیکھا۔ انار کلی کی بڑی دلچسپ تاریخ ہے۔ انگریزوں نے ہمیشہ میاں میرؒ چھائونی ، اسٹیشن، پل،گائوں اپنی سرکاری خط و کتابت میں ، کتابوں اور گزٹیئر میں استعمال کیا۔ ہم نے اس کو لاہور کینٹ کا نام دے دیا۔ اگر انگریز برصغیر کے اس ولی کامل حضرت میاں میرؒ کو اتنی عزت اور احترام دیتے رہے تو ہم کیوں ان کے پرانے نام کو بحال نہیںکرتے؟

گوروں کے جانے کے بعد اور 1965ء کی جنگ کے بعد بھی کچھ عرصہ تک میاں میرؒ چھائونی (لاہور کینٹ) کی تمام سڑکوں کے نام انگریزوں اور برصغیر کے مختلف شہروں پر تھے۔ ہم ایک عرصہ سے اپنے کالموں اور لاہور کینٹ بورڈ کے کئی افسروں کو کہہ چکے ہیں کہ آپ کو میاں میرؒ چھائونی میں سڑکوں کے اصل نام بھی موجودہ ناموں کے ساتھ درج کرنے چاہئیں۔ چنانچہ گزشتہ ہفتے ہم نے لاہور کینٹ کی مختلف سڑکوں کے کچھ نام نوٹ کئے جو قارئین کی دلچسپی کے لئے درج کیے جا رہے ہیں۔ اب کچھ سڑکوں پر ان کے پہلے نام لکھے گئے ہیں لیکن اس میں غلطی یہ ہے جیسا کہ اولڈسینٹ جان روڈ، تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اب یہ نیو سینٹ جان رو ڈ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لکھا جاتا ’’ اولڈ نیم ‘‘یعنی اس سڑک کا پرانا نام۔ بیکیسمتھ روڈکا نیا نام منیر شہید روڈ ہے۔ فیدراسٹون روڈ کا نام عابد مجید روڈ ہے۔ یہ سڑک کافی لمبی ہے جو شیر پائو پل سے شروع ہو کر پرانے ایئر پورٹ اور ایم آئی کے آفس تک جاتی ہے۔ ویسے آج بھی وی وی آئی پیز کو اس راستے سے ایئر پورٹ لے جایا جاتا ہےاور اب ایک اور راستہ بھی اس ملک کے حکمرانوں کے لئے مخصوص کیا جاچکا ہے۔ لاہور کا اصل اور پرانا ایئر پورٹ والٹن ایئر پورٹ ہے اس ایئر پورٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قائد اعظمؒ اس ایئر پورٹ پر پاکستان بننے کے بعد تشریف لائے تھے۔ ایک مدت سے اس ایئر پورٹ پر قبضہ مافیا نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔ اب یہاں فلائنگ کلب ہے۔کبھی ہم نے اس ایئر پورٹ کے رن وے پر موٹرسائیکل بھی چلائی ہے۔ اس کے ارد گرد کھیت ہوا کرتے تھے۔ الٰہ آباد روڈ موجودہ نام اسد جان روڈ ، چوننگھم روڈ موجودہ ایم سرفراز رفیقی روڈ، سینٹ جان روڈ موجودہ نام عزیز بھٹی روڈ، کور کمانڈر ہائوس روڈ موجودہ نام ناگی روڈ (کیپٹن جرجیس ناگی ہمارے چچا تھے اور 1965کی جنگ کے آخری شہید تھے۔ اس کے بعد جنگ بندی ہوگئی تھی)۔ اسپنسرروڈ کا موجودہ نام شامی روڈ، سرہیو روز روڈ کا نام اب سرور روڈ، میاں میرؒ چھائونی (لاہور کینٹ) کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں کم از کم سو سے دوسو برس قدیم بے شمار درخت ہیں جن کی جڑیں زمین تک آ چکی ہیں،آج بھی اس علاقے کی کئی سڑکیں درختوں کی چھائوں سے ڈھکی ہوئی اور ٹھنڈی ہیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین