• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں بتایا اور پڑھایا گیا کہ پاکستان بننے سے پہلے جعفر علی خان المعروف میر جعفر نے ملک (ہندوستان) اور قوم (مسلمانوں) سے غداری کی۔میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں سپہ سالار لیکن ایک بدفطرت آدمی تھا اس نے خود نواب بننے کے لئے انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا۔ بنگالی عوام میر جعفر کی اس غداری پر اسے ’’لارڈ کلائیو کا گدھا‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح میر صادق جو ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کا معتمد خاص تھا بعد ازاں میسور کے سلطان ٹیپو کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز ہوا لیکن اس نے بھی غداری کی اور سرنگاپٹم کے محاصرے کے دوران انگریزوں کا ساتھ دیا نتیجتاًسلطان ٹیپو شہید اور انگریزوں کو فتح ہوئی۔ پھر ہوا یہ کہ 1947میں پاکستان وجود میں آگیا لیکن ہم نے تلخ اسباق بھلا کر میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا کو نوزائیدہ پاکستان میں وزارت دفاع کا سیکرٹری اور پھر اسی مشرقی پاکستان کا گورنر بنا دیا جہاں اس کے پڑدادا کو ’’لارڈ کلائیو کا گدھا‘‘ کہا جاتا تھا، بعدازاں اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا، ریاستوں اور قبائلی محکموں کے معاملات بھی اسے سونپے، پھر پاکستان کا قائم مقام گورنر اور آخر کار 1956 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا صدر منتخب کرلیا۔ اسکندر مرزا اپنے پردادا کی طرح سازشی، افسر شاہی اور فوج کی پروردہ شخصیت تھا اسی لئے اس نے ملک کی جمہوریت کو آمریت کی طرف دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ذراطائرانہ نگاہ ڈالیں تو سابق مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی جو پاکستان کے پانچویں وزیراعظم بھی تھے، بنگالی سیاستدانوں مولانا بھاشانی اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن بھی غدار تھے‘ ان پر غداری کا مقدمہ بھی چلایا گیا اور سزائے موت بھی سنائی گئی، ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے تو یہ سزا منسوخ کردی اور پھر اسی ’’غدار‘‘ کے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا گیا بلکہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں دعوت دے کر بلایا اور اسے مغربی پاکستان میں 21توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ معلوم دنیا کی سیاسی تاریخ میں شاید یہ پہلی مثال ہوگی کہ پوری کی پوری ایک قوم بلکہ فوج کا ایک بڑا حصہ بھی غداری کے سرٹیفکیٹ سے نہ بچا ہو، یعنی پاکستان کی فوج میں تمام کے تمام بنگالی قومی غدار کہلائے، حقیقت میں پاکستان کے قیام سے کوئی چار سال بعد ہی ’’غداری‘‘ کے ٹیگ بٹنا شروع ہوگئے تھے۔سب سے پہلے ’’راولپنڈی سازش کیس‘‘ بناجب ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے شرکا پر غداری کا الزام لگا، ان ’’غداروں‘‘ میں سازش کے سرغنہ میجر جنرل اکبر خان، ان کی بیگم نسیم شاہنواز خان، 11 دیگر فوجی افسر اور چار شہری جن میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور محمد حسین عطا بھی شامل تھے لیکن بعد ازاں ریاست کی طرف سے انہیں معافی دے دی گئی۔

پاکستان میں آتی جاتی تقریباً تمام حکومتوںکی غداری کو معاف کردینے کی روایت بھی مشترکہ ہے یعنی جس قدر سرعت اور چابک دستی سے کسی پر سازش اور غداری کا الزام لگایا جاتا ہے اسی تیزی سے ان ’’غداروں‘‘ کے تمام گناہ معاف بھی کردیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے تازہ غداروں میں جاوید ہاشمی بھی شامل ہیں جن پر مشرف حکومت نے 2003ء میں غداری کا مقدمہ بنایا، 23 سال قید بھی سنائی لیکن تین سال اور چند ماہ بعد ہی انہیں رہا کردیا گیا۔ پھر پرویز مشرف پر بھی آئین کو معطل کرنے پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا 2014ء سے یہ مقدمہ قائم ہے لیکن تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی، سابق صدر آصف علی زرداری، نجم سیٹھی، حسین حقانی، مرحومہ عاصمہ جہانگیر، ایم کیو ایم کے متعدد چھوٹے بڑے رہنما اور کئی ایک معروف صحافی بھی گاہے گاہے غداری کے زمرے میں آتے رہے ۔ عبدالصمد خان اچکزئی، پیر آف مانکی شریف، جی ایم سید، میاں افتخار الدین، مظہر علی خان اور شیخ ایاز جیسے لوگ بھی ’’غداری کا سرٹیفکیٹ‘‘ حاصل کر چکے ہیں لیکن انہیں کبھی غداری کی مجوزہ سزا نہیں دی گئی۔ شاید یہ ایک مثال ہے جب ایوب خان کے دور میں بلوچ رہنما نواب نوروز خان، ان کے بھائیوں اور بیٹوں کو غداری کے جرم میں پھانسی دی گئی جبکہ عطا اللہ خان مینگل ان کےبھائی نور الدین مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، دودا خان زرکزئی اور بلوچ شاعر گل خان نصیر کو بھی غدار تو قرار دیا گیا لیکن پھانسی نہیں دی گئی۔ صرف جی ایم سید تھے جنہیں مختلف اوقات میں 28 سال مختلف اوقات میں جیل میں رکھا گیا اور نظر بندی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔

جنر ل ضیاالحق کی آمریت میں غلام مصطفیٰ کھر اور جام صادق کوبھی ’’را‘‘ کا ایجنٹ بتایا گیا لیکن پھر انہی ’’غداروں‘‘ کو اعلیٰ سیاسی عہدوں پر بھی بٹھایا گیا۔ غداروں کی اس لسٹ میں ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ، میر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی آتی ہیں جنہیں سکیورٹی رسک قرار دیا گیا،نواز شریف کو بھی یہ سرٹیفکیٹ دیا گیا لیکن پھر ان دونوں کو وزیراعظم بھی بنایا گیا، تازہ غداروں میں سابق ڈی جی ’’آئی ایس آئی‘‘ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں بلکہ بیسیوں دیگر نام بھی ہیں جو ’’غداری‘‘ کے زمرے میں ہیں یا کسی بھی وقت کسی کو یہ سرٹیفکیٹ دیا جا سکتا ہے لیکن مجھے امید ہے اور پاکستان کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اس ملک کی مٹی ہی اس قدر ’’زرخیز‘‘ ہے کہ غداری کی فصل جس تیزی سے اگتی ہے اتنی ہی سرعت سے معافی کا بیج بھی پرورش پاتا ہے۔لہٰذاوقت کی آغوش میں ایک ایسا زمانہ ضرور ہوتا ہے جب ’’غداروں‘‘ کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے، معاف کردینے کی روایت پاکستان میں شاید اس لئے بھی ہے کہ غداری جیسا سنگین الزام کسی بھی محب وطن پر لگاتے وقت کسی قسم کی اخلاقی یا قانونی قدروں کو ملحوظ خاطرنہیں رکھا جاتا جس کے نتیجہ میں نفرت کی خلیج گہری ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی تعمیر و ترقی کا پہیہ بھی رک جاتا ہے۔ اس روش کی سب سے بڑی وجہ صرف یہ سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف رائے کو ہی غداری سمجھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ کو حب الوطنی کا نام دے دیاگیا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب غداری کے سرٹیفکیٹ جھوٹے تھے یا ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان کے اصل غدار وہ نہیں جو ملک کی جڑوں کو ارادی طور پر کھوکھلا کرنے کی عین وجہ ہیں اور جنہوں نے پاکستان کی آئندہ نسلوں کا درخشاں مستقبل تاریک کردیا ہے، کیا سزا ان غداروں کو ملنی چاہیے یا ان کو جو فقط رائے کا اختلاف رکھتے ہیں؟

تازہ ترین