• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات گزشتہ برس کے ماہ فروری کی ایک سرد شام کی ہے۔ میں یروشلم میں الزاہرہ نامی ریستوران میں ایک ساتھی محقق ڈاکٹر علی کے ہمراہ شام کا کھانا کھا رہا تھا۔ پہلی بار یروشلم اور مسجد اقصی آنے کا موقع ملا تھا، سفر کی تھکن بھی دور نہ ہوئی تھی، مگر مسجد میں نماز کی ادائیگی کا شوق فراواں تھا، بندوق تانے اسرائیلی پہرے داروں کے سوالات اور ارضِ مقدس پر موجود ہونے کے ملے جلے جذبات نے ایک عجیب کیفیت پیدا کر رکھی تھی۔ تھکن بھی تھی اور بے چینی بھی، سکون بھی تھا اور الجھن بھی۔ خواب اور حقیقت کے مابین کی ایسی کیفیت کبھی پہلے نہ محسوس کی تھی، اور نہ ان دنوں کے بعد کبھی ایسا وقت آیا۔ علی، جن کا خانوادہ یروشلم میں اس وقت سے آباد ہے جب عمر فاروقؓ یہاں آئے تھے، نے ایک طویل عرصے کے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔کچھ خود دیکھے ہیں اور کچھ بزرگوں کی یاداشت سے ورثے میں پائے ہیں۔ ہزار برس گزرنے کے بعد بھی یہی طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ علی اور ان جیسے لوگ غاصب ہیں۔ علی کے لئے گولیوں کی آواز نئی ہے، نہ بے دخلی کے ضابطے۔ فلسطینی کھانوں کے لذیذ لقموں کے درمیان علی اور ان کی صاحبزادی نے وہ اندوہناک کہانیاں سنائیں کہ جن کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو لرز جاتا ہوں۔ مگر علی کا اصل غم ان کے غم کی گمنامی پر ہے، اپنوں کی چشم پوشی پر ہے۔ وہ اپنے جنہوں نے سات دہائیاں فلسطین کے نام پر سیاست کی اور اپنی دکان چمکائی، اور پھر ایک روز مصلحت کی آڑ میں، مشکل وقت میں، اپنی راہ لے لی۔

یہ بات ان دنوں کی ہے کہ جب امارات، بحرین، عمان اور سوڈان سے اسرائیلی معاہدے طے نہ ہوئے تھے، مگر علی کو یقین تھا کہ وہ دن دور نہیں کہ جب ایسا ہو جائے گا، اور تمام عرب ممالک اپنی مرضی کا معاہدے کر کے چلتے بنیں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ سال کے آخر تک کئی عرب ممالک نے رنگا رنگ تقریبات میں معاہدے کئے، ظہرانوں اور عشائیوں پر مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوا، کسی کو سیاحی کا ٹکٹ ملا اور کسی کو نئی کمپنی کا ٹنڈر، اور پھر یروشلم والوں کو سب بھول گئے۔ علی کو یقین تھا کہ پھر کوئی چنگاری بھڑکے گی، کچھ لوگ خاک ہوں گے، کچھ خواب جلیں گے، اور پھر وہی بے نیازی۔ اس وقت علی کی بات مبالغہ معلوم ہوتی تھی، اور میں نے سمجھا تھا کہ شاید علی جذباتی ہو رہے ہیں۔مگر اس گزشتہ رمضان المبارک اور اس کے بعد کے دنوں میں جو کچھ ہوا، لگتا تھا کہ علی کے پاس مستقبل دیکھنے کا کوئی آلہ ہے۔

کل اخبار کھولا تو معلوم ہوا کہ صلح ہو گئی ہے، جنگ بندی کے بعد کی شہنائیاں گونج رہی ہیں۔ غزہ کی بمباری اور تباہ کاری میں سب پھر بھول گئے کہ یہ تو ہونا ہی تھا، پہلے بھی ہو چکا ہے، اور شاید دوبارہ بھی ہو۔ یہ سوال تو سبھی بھول بھی گئے کہ یروشلم والوں کا کیا ہوا؟ شیخ الجراح کی صورتحال تو ویسے کی ویسی ہے اور شاید اب بدتر ہوجائے۔ ان کی بے دخلی کی خبر شاید اب پچھلے صفحے پر کالم نمبر پانچ پر کبھی آئے تو آئے۔ پھر علی کی بات ذھن میں گونجنے لگی کہ کسی نے معاہدوں پر دستخط کرنے والوں سے نہ پوچھا کہ کیا یہی دور اندیشی تھی ؟ کیا مصلحت اسی کا نام ہے۔ برادر ممالک نے کچھ گھٹی کچھ دبی آوازیں بلند کیں، مگرکیا اپنے گریباں میں جھانک کر بھی دیکھا؟ اب جو کہ بندوقیں خاموش ہیں، کیا کل سے وہی خصوصی فلائٹیں چلیں گی؟ کیا اب جب سارے جنازے اٹھ چکے توکیا پھر حسنِ دلآرا کی وہی دھج ہوگی؟ گزشتہ دنوں میں دلخراش خبروں اور تصویروں کو جب دیکھتا تو علی کا خیال آتا۔ علی کو وٹس ایپ پر پیغام بھیجا کہ معلوم کروں کہ دوست کیسا ہے۔ علی نے فورا جواب دیا، کہ بھائی ٹھیک ہوں، رب کا کرم ہے، خدا آگے بھی ایسے ہی محفوظ رکھے، اور ہاں شاید لوگوں کو لگے کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے، مگر ہم سے پوچھو تو یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔

تازہ ترین