25جون کے جنگ میں جبار مرزا صاحب نے اپنے کالم میں زیارت کے طوطی خان کا ذکر کیا ہے اور ان کو قائد اعظم کا خدمت گار بتایا ہے۔ قائد اعظم کو ان کے آخری ایام میں ان کے معالج کرنل الٰہی بخش کی تجویز پر زیارت پر لے جایا گیا تھا کہ یہ ایک پر فضا مقام تھا اور قائد اعظم نے اسے پسند بھی فرمایا تھا۔ طوطی خان ان دنوں زیارت ریذیڈنسی میں مالی کے طور پر ملازم تھا۔ قائداعظم کی تیمار داری اور علاج کی ٹیم میں کرنل صاحب کے علاوہ ایک انگریز نرس اور محترمہ فاطمہ جناح شامل تھیں۔ ایسے میں ٹیم میں خدمت گار کے طور پر ایک مالی کو شامل کرنا حقیقت سے بعید بات ہے۔ کئی لوگوں نے کافی عرصے بعد زیارت جیسے پُرفضا مقام کی سیاحت کے دوران طوطی خان کے کردار کو بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اسے قائد اعظم کے خدمت گار کا لقب عطا کر دیا۔ فارسی کے شاعر فردوسی نے ”رستم“ کے بارے میں لکھا ہے۔
منم کردہ رستمے پہلوان
وگرنہ یلے بود در سیستان
رستم کو تو بڑا پہلوان میں نے بنایا ورنہ بیچارہ سیستان میں ایک چھوٹا موٹا پہلوان تھا ۔طوطی خان کے بارے میں لوگوں نے کئی واقعات لکھ دیئے اس کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ طوطی خان نے قائد اعظم کی ایک جھلک تک نہ دیکھی۔ اس کی تصدیق خود طوطی خان کی آواز میں ان کے ایک انٹرویو میں کی گئی ہے۔ فارسی کی ایک مثل ہے۔
مشک آناست کہ خود بہ بوید،نہ کہ عطار بہ گوید
(خوشبو وہ ہے جو خود بتا دے، نہ کہ عطار اس کے بارے میں بتائے)
70ء کی دہائی میں ریڈیو پاکستان سینٹرل پروڈکشن یونٹ کے پروگرام منیجر معروف علی صاحب نے طوطی خان کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔اس انٹرویو میں طوطی خان سے متعلق جتنی باتیں کی گئی تھیں ان سب کا تذکرہ کر کے طوطی خان کے تاثرات پوچھے گئے۔ طوطی خان سے پہلا سوال ہوا کہ طوطی خان صاحب ! آپ نے قائد اعظم کو پہلی بار کب دیکھا؟ طوطی خان کا جواب تھا۔ صاحب جب قائد اعظم کو یہاں لایا گیا تو ریذیڈنسی کے تمام ملازمین کو کہا گیا کہ وہ اپنے کوارٹروں میں چلے جائیں اور دروازے بند کر لیں ۔غالباً اس کی وجہ یہ رہی ہو گی کہ قائد اعظم کو اسٹریچر پر لٹا کر ریذیڈنسی کی عمارت میں لے جانا تھا اور اس بات کو عام نہ ہونے دینا اس کی وجہ ہو گی۔طوطی خان سے دوسرا سوال ہوا کہ یہ بتایئے کہ آپ جب قائد اعظم کے کمرے میں جاتے تھے تو وہ آپ سے کس طرح بات کرتے تھے ؟
طوطی خان کا جواب کچھ یوں تھا۔نہیں صاحب ہم لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی جناح فاطمہ صاحبہ (طوطی خان نے فاطمہ جناح کو اسی طرح کہا ہے) خود ہر چیز کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔پھر طوطی خان سے سوال ہوا کہ کبھی ایسا ہوا کہ قائد اعظم لان میں آ کر بیٹھے ہوں اور وہاں تم کیاری میں کام کر رہے ہو اور قائد اعظم نے تمہارے پھولوں کی تعریف کی ہو۔طوطی خان کا جواب تھا ۔نہیں صاحب نہیں۔ قائد اعظم کبھی باہر نہیں نکلے وہ اندر ہی رہتے تھے۔پھر سوال ہوا کہ کبھی تم ان کے لئے گلدستہ لے کر گئے تو انہوں نے کیا کہا؟طوطی خان کا جواب اس طرح کا تھا۔صاحب ہم لوگ گلدستہ بنا کر جناح فاطمہ کو دے دیتے تھے، وہ اندر لے جاتی تھیں ہم لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
طوطی خان کبھی ایسا ہوا کہ قائد اعظم بیٹھے ہوں اور آپ کے بچے وہاں آ گئے ہوں تو انہوں نے ان کو پیار کیا ہو اس کے بارے میں بتایئے۔طوطی خان کا جواب تھاکہ:صاحب ہم لوگوں کو اجازت نہیں تھی تو ہمارے بچوں کو وہاں کس طرح اجازت مل سکتی تھی۔طوطی خان نے ہر سوال کے جواب میں جو مختلف جہتوں کی عکاسی کرتے تھے یہی حقیقت بیان کی کہ اس نے قائد اعظم کی خدمت تو کجا ان کو دیکھا تک نہیں۔میں نے اپنے ایک ریڈیو پروگرام میں طوطی خان کے اس انٹرویو کے اقتباسات نشر کئے تھے۔ یہ انٹرویو اصلی حالت میں ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے سینٹرل پروڈکشن یونٹ کی لائبریری میں ابھی بھی محفوظ ہے۔ اس کو سن کر حقائق کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ میں نے طوطی خان کے جوابات کا مفہوم بیان کیا ہے۔ جس میں اس نے بڑی سادگی اور دیانتداری سے اصل صورتحال بیان کی ہے۔کوئٹہ میں ایک اور شخص قائد اعظم کا کمپاؤنڈر کے لقب سے مشہور تھا۔ معروف صاحب نے اس کا انٹرویو بھی لیا یہ انٹرویو بھی اس لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس شخص نے بھی قائداعظم کو دیکھا تک نہ تھا ۔ اس نے بھی اپنے انٹرویو میں حقیقت بیان کی۔”صاحب میں کوئٹہ کے سول سرجن کا ڈرائیور بھی تھا اور اسپتال میں کمپاؤنڈر بھی تھا ایک شام صاحب کو زیارت سے فون آیا، صاحب نے مجھ سے کہا کہ جیپ تیار کرو ہمیں زیارت جانا ہے وہاں سے فون آیا کہ کچھ انجکشن اور دوائیں لے کر ہم پہنچیں چنانچہ ہم کوئٹہ سے نکلے، راستے میں ہندو باغ کے مقام پر ہماری جیپ خراب ہو گئی۔ سول سرجن صاحب نے ایک ٹرک کو روکا اور اس میں بیٹھ کر زیارت چلے گئے۔ میں جیپ کے پاس رہا، صبح اسے ٹھیک کروا کر واپس کوئٹہ آ گیا۔اس شخص کا کہنا ہے کہ مجھے بہت شوق تھا کہ میں اپنے قائد اعظم کو دیکھ لوں گا لیکن جیپ کی خرابی نے میری یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔