• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں یہاں یہ بات کہتا چلوں کہ سندھ میں اکثر اولیاء کے مریدین جہاں مسلمان ہوتے تھے وہاں ہندو بھی ہوتے تھے، سانگھڑ میں ٹنڈو آدم کے نزدیک ایک شہر ’’اڈیرو لعل‘‘ بھی ہے جہاں ایک شیخ بزرگ کے مزار کے دو حصے ہیں، ایک حصہ ہندوئوں کے لئے مخصوص ہے تو دوسرا حصہ مسلمانوں کیلئے، ایک وقت تھا جب اس مزارپر ہندو زائرین کی بڑی اکثریت موجود ہوتی تھی،ہندوستان اور پاکستان بننے کے بعد وقت بہ وقت ہندوستان سے آنے والے ہندو ان کے مزار پر حاضری دیتے جبکہ سندھ کے چند مشہور بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی‘ قلندر شہباز‘ شاہ عنایت شہید اور شاہ عبدالکریم بلڑی والے کے مزارات پر بھی مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی زیارت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ سکھر کے پاس دریائے سندھ کے پاس دربیلہ میں ہندوئوں کا ایک مذہبی مقام ہے ۔ اب بھی پاکستان کے مختلف حصوں سے آنے والے ہندوئوں کے علاوہ ہندوستان سے آنے والے ہندو یہاں آکر دھرمی رسومات ادا کرتے ہیں۔ سندھ کے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ سندھ میں رہنے والے ہندوئوں اور مسلمانوں میں کبھی کوئی چپقلش نہیں ہوئی تو ہندو سندھ چھوڑ کر ہندوستان کیوں چلے گئے؟ شایدہندوستان میں انتہائی سرگرم ہندو انتہا پسند تنظیموں کے شبانہ روز پروپیگنڈا سے متاثر ہوکر سندھ سے ہندو ہندوستان چلے گئے جبکہ اس سلسلے میں کچھ اور اسباب بھی بتائے جاتے رہے ہیں۔ فی الحال اس ایشو کو یہاں چھوڑ کر میں ذکر کرنا چاہوں گا کہ جب ہندوستان سے مسلمان ہجرت کرکے آئے تو راجستھان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان زیادہ تر پرامن طور پر پاکستان کے علاقے سندھ آگئے جبکہ خاص طور پر ہندوستان کے علاقے یو پی،سی پی میں چونکہ مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں نے فسادات کیے جن میں مسلمانوں کو لوٹا گیا اور ان پر حملے بھی کئے گئے ، ان کو بے گھر کردیا گیا لہٰذا یہ مسلمان ٹرینوں کے ذریعے پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بات تو کافی مشہور ہوئی کہ ان مسلمانوں کو لیکر ٹرینیں جب پاکستان کے علاقے میں داخل ہوتیں تو پنجاب میں اگر مسلمانوں نے ٹرینوں سے اتر کر وہاں رات بسر کرنے کا ارادہ کیا تو ان کو یہ نہیں کرنے دیا گیا اور ان کو کہا گیا کہ ’’پاکستان آگے ہے‘‘۔ اسی طرح یہ مہاجرین زیادہ تر سندھ میں داخل ہوئے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب یہ مہاجرین سندھ میں داخل ہوئے تو سندھ کے ہر علاقے میںان کا احترام کیا گیا اوران کو سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنے کے سلسلے میں مقامی عوام نے ان سے تعاون کیا۔ کچھ ٹرینوں کو اسٹیشن کے علاوہ درمیان میں رکنا پڑا جہاں ریلوے کی پٹری کے دونوں طرف گائوں تھے،جب گائوں کے لوگوں کو پتہ چلا کہ نزدیک جو ٹرین رکی ہے اس میں ہندوستان سے آنے والے لٹے پٹے مسلمان مہاجر ہیں توانہوں نے اپنےگھروں کی خواتین سے مہاجرین کی تواضع کیلئے مختلف انواع کے کھانے تیار کروائے۔ جو ہندو گھر چھوڑ گئے تھے ان پر علاقے کے کسی مسلمان نے قبضہ نہیں کیا کیونکہ یہ گھر ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے لئے مخصوص کئے گئے تھے۔ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے زیادہ تر سندھ کے بڑے شہروں کراچی،حیدرآباد، سکھر وغیرہ میں آباد ہونے کو ترجیح دی یا باقی مہاجر اپر سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں بس گئے۔ مہاجرین کے لئے حکومت وقت نے جو بھی سہولتیں فراہم کیں، سندھ کے مسلمانوں نے ان اقدامات کی تعریف کی اور اس سلسلے میں خود بھی معاونت کی۔ اس پورے عرصے کے دوران سندھ کے کسی بھی علاقے سے ان مراعات کی مخالفت نہیں کی گئی۔یہ ساری صورتحال اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ سندھ شروع سے ہی امن کی دھرتی رہی ہے اور سندھ کے لوگوں نے اس سلسلے میں کبھی لسانی یا نسلی منافرت کا مظاہرہ نہیں کیا مگر یہاں اکثر سندھ کے لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ ہندو اتنے بڑے پیمانے پر سندھ چھوڑ کر ہندوستان جانے کے لئے کیوں تیار ہوگئے۔ اس سلسلے میں کئی داستانیں سننے میں آتی ہیں۔کیا ضروری نہیں ہے کہ حکومت وقت ایک کمیشن تشکیل دے جو اس بات کا جائزہ لے کہ سندھ کے ہندو اتنے بڑے پیمانے پر کیوں سندھ چھوڑ کر ہندوستان جانے پر مجبور ہوگئے۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق سندھ چھوڑ کر جانے والے کافی ہندو دنیا کے مختلف علاقوں میں جاکر بسے۔ان علاقوں میں خاص طور پر ہانگ کانگ اور دبئی وغیرہ شامل ہیں۔ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ دبئی شہر کی ترقی میں سندھ کے ہندو سیٹھوں کاکردار ہے۔اسی طرح ہانگ کانگ میں بھی اکثر بڑے اسٹور اور ادارے ان سندھی ہندو سیٹھوں کی ہی ملکیت ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ ہانگ کانگ ہوکر آئے ہیں وہ ہانگ کانگ کو کہتے ہی سندھی ہندو سیٹھوں کا شہر ہیں۔ یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں کہ سندھ سے جانے والے یہ ہندو جہاں بھی آباد ہوئے وہاں انہوں نے کسی بھی نسل اور مذہب کے لوگوں سے مخاصمت کا مظاہرہ نہیں کیا، پرامن بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے رہے جو کردار حقیقت میں صدیوں سے سندھ کا رہا ہے۔

تازہ ترین