• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء تیزی سے جاری ہے جورواں برس گیارہ ستمبر کو مکمل ہوجائے گا، آئندہ چند دنوں میں افغانستان میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئربیس بھی خالی کردیا جائے گا۔ کیا واقعی امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر لاتعلق ہوجائے گا یا پڑوسی ممالک میں موجود فوجی اڈوں سے خطے کی صورتحال پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے گا؟ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کا کیا کردار ہوگا؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن پر عالمی میڈیا میںپُرمغز تبصرے جاری ہیں، عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر واپسی کا متحمل نہیں ہوسکتا، عالمی منظرنامےمیں امریکہ کے مدمقابل چین اور روس کا اتحادتیزی سے اپنی اہمیت منوا رہا ہے، امریکہ جن ممالک سے منہ موڑتا ہے وہ بہت جلد اپنی معاشی اور دفاعی ضروریات کیلئے چین کے قریب آجاتے ہیں، تاہم اس امر پر عالمی میڈیا کا اتفاق ہے کہ امریکہ کو افغانستان اور خطے پر نظر رکھنے کےلئے فوجی اڈوں کی شدید ضرورت ہے۔ اگر افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر نظر ڈالی جائے تو چین ایران اورروس کے حوالے سے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ امریکہ کو اڈے فراہم کریں۔ بیس سال قبل نائن الیون کے ردعمل میں سینٹرل ایشیاکے کچھ ممالک نے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کئے تھے لیکن آج وہاں صورتحال بدل چکی ہے۔ کرغزستان، قازقستان اور تاجکستان روس کی قیادت میں علاقائی دفاعی اتحاد کا حصہ بن چکے ہیں، تاجکستان میں پہلے ہی روس کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے جہاں پانچ ہزار سے زائد روسی فوجی تعینات ہیں، اسی طرح کرغزستان میں بھی روس کا فوجی اڈہ عرصہ دراز سے قائم ہے، ازبکستان کا آئین غیرملکی اڈوں کی اجازت کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں چین کا سینٹرل ایشیائی ریاستوں میں اثرورسوخ تیزی سے بڑھا ہے، روس اور چین کی سینٹرل ایشیا ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں معمول کی بات ہیں۔میری نظر میں چین، روس اور سینٹرل ایشیا کے ممالک افغانستان کے تمام فریقین سے قریبی تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اورامریکہ کے انخلاء کے بعد افغانستان کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔ پاکستان کی بات کی جائے تو ہم آج بھی اپنے آپ کو وہیں کھڑا محسوس کررہے ہیں جہاں نوے کی دہائی اور نائن الیون کے موقع پر تھے، گزشتہ بیس برسوں میںافغانستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں پاکستان کا اہم کردار ہے،ہمارے بہادر فوجی جوانوں اور معصوم عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکےیہ فرض ادا کیا۔افسوس کا مقام ہے کہ بیس سال بعد ہم خارجی محاذ پر بدستور گومگو کی صورتحال کا شکار ہیں، رواں برس گیارہ ستمبر کے بعد کے افغانستان میں ہمارا کیا کردار ہوگا؟ جبکہ ایسی بے شمار رپورٹس عالمی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ امریکہ خطے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئےپاکستان میں فوجی اڈوں کا طلبگار ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی تیزرفتارواپسی کے باوجود سی آئی اے اور دیگرامریکی سیکورٹی ادارے انٹلیجنس معلومات اور انسدادِ دہشت گردی کےلئے افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں، دوسری طرف کچھ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا دروازہ بند نہیں ہوا اور امریکہ کی پاکستان کے ساتھ’’ڈیل‘‘عنقریب متوقع ہے ۔ امریکی اخبار کی مذکورہ رپورٹ کے ردعمل میں ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان بھی میڈیا کی زینت بنا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔میں افغانستان کے موضوع پراپنے گزشتہ کالموں میں واضح کرچکا ہوں کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی سے ریاستی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آیا کرتی، امریکہ کی تاریخ بتلاتی ہے کہ امریکہ مطلب نکل جانے کے بعد آنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں لگاتا، امریکہ نے آخرکار بیس سال بعد افغانستان سے واپسی کا فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن انخلاء کے بعد کی صورتحال سے لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے کوئی واضح پالیسی عالمی برادری کے ساتھ شیئر نہیں کررہا ۔ میری نظر میں امریکہ کی افغانستان سے جلدبازی میں واپسی سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوگا، اس کی ایک وجہ تو موجودہ افغان حکومت میں پاکستان مخالف عناصر کی موجودگی ہے اور دوسرے پاکستان کی طالبان کے خلاف ماضی میں کارروائیاں بھی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ افغانستان پاکستان کا وہ ہمسایہ ملک ہے جس نے روز اول سے پاکستان کے لئے مسائل کھڑے کئے، کبھی ڈیورنڈ لائن کا تنازع کھڑا کیا گیا اور کبھی معصوم پاکستانی قبائل کو پختونستان کے نام پر گمراہ کیا گیا، پاکستان میں جاری دہشت گردی کے تانے بانے افغان عناصر سے ملتے رہے، مجبوراََ ہمیں بارڈر مینجمنٹ کےلئے خاردار تاریں لگانی پڑیں پھر بھی ہم نے سویت جارحیت کے بعدانسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی۔مجھے خدشہ ہے کہ اگر امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے تو افغان مہاجرین کا ایک نیا سیلاب پاکستان کا رخ کرسکتا ہے اور اگر افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر طاقت میں آگئے تو ہمیں مغربی محاذ پر جنگی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔انخلاء کے بعد چین اور روس کا علاقائی اتحاد امریکہ کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے، بھارت بھی نئے منظرنامہ میں اپنی جگہ بنانے کےلئے کوشاں ہے،اسی طرح ایران اور چین کے مابین تاریخی اقتصادی معاہدہ ہوچکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کوئی انتظارکئے بغیر ہنگامی بنیادوں پر اپنی افغان پالیسی پر کام شروع کردینا چاہئے، علاقے کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم غیرضروری اور جذباتی بیان بازی سے گریزکرتے ہوئے خارجہ محاذ پر بہت سمجھداری اور احتیاط کا مظاہرہ کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں 00923004647998)

تازہ ترین