• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نصف صدی پہلے زندگی بہت سادہ ہوتی تھی۔ جدید اور خوش حال گھرانوں میں مرفی یا فلپس کا گراموفون ہوا کرتا تھا، جس پر ـ’’ہز ماسٹرز وائسـ‘‘ (ایچ ایم وی) کے ریکارڈ سنے جاتے تھے، جن پر فونو گراف سنتے ہوئے کتے والا لوگو بنا ہوتا تھا۔ بھاپ کے انجن سے چلنے والی ٹرینیں سفر کا عام ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ بیش تر بستیاں بجلی سے محروم تھیں۔ رات کا کھانا جلد کھا لیا جاتا اور لوگ عشا کی نماز ادا کرتے ہی سو جایا کرتے تھے۔ رات آٹھ بجے ریڈیو پر نشر ہونے والی خبریں سننا عموماً آخری سرگرمی ہوا کرتی تھی۔ سڑکوں پر اِکّا دُکّا کاریں اور موٹر سائیکلیں نظر آتی تھیں۔ مکڈونل ڈگلس، ٹرائمف اور بی ایس اے مقبول موٹرسائیکلیں ہوا کرتی تھیں جب کہ شیورلیٹ اور فورڈ جیسی دل کش اور باوقار کاریں سڑکوں پر راج کرتی تھیں۔ جاپان کی کم قیمت والی کاروں نے سڑکوں پر تب تک ہجوم نہیں کیا تھا۔

تار تیز ترین ذریعۂ پیغام رسانی تھا، جسے عموماً بیماری اور موت کی اطلاع دینے کے لئے استعمال کیا جاتا۔ چنانچہ ڈاکیا معاشرے کی مرکزی شخصیت ہوا کرتا تھا، جو محبت، نفرت، موقع، غم اور دکھ کے پیغامات کے علاوہ منی آرڈر تک کی ترسیل کا ذمہ دار ہوتا۔ چھوٹے شہروں میں اس وقت تک سوئی گیس میسر نہیں تھی۔ کھانے اُپلوں، لکڑی یا مٹی کے تیل کے چولہوں پر پکائی جاتے۔ زیادہ خوش حال معدودے چندگھرانے گیس سلنڈر استعمال کیا کرتے تھے۔ تحصیل دار، مجسٹریٹ اور مقامی پولیس افسر کو بہت اونچے افسر کا مرتبہ حاصل تھا۔ نجی اسپتال اور کلینک کھمبیوں کی طرح نہیں اُگے تھے۔ ایکس رے اور خون کے ٹیسٹ جیسی بیش تر سہولیات صرف بڑے شہروں کے محدوداسپتالوں ہی میں میسرہوا کرتی تھیں۔ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین اس وقت تک وہم و گمان ہی میں نہ آئے تھے۔ پینے کا پانی مقامی کنویں سے بھر کر لایا جاتا اور مٹی کے گھڑوں یا صراحیوں میں محفوظ کیا جاتا۔ ائیرکنڈیشنرفریج یا واٹر ڈسپنسر ابھی تصوراتی دنیا میں معلق تھے۔

اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی ٹیکنالوجی میں تیزی سے، ترقی نے بھی دوڑ پکڑ لی۔ کمپیوٹروں نے دنیا بھر میں دھومیں مچا دیں اور تیزی سے بہت زیادہ مؤثر ہو گئے، طوفان کی طرح انسانی زندگی کے ہر شعبے پر چھا گئے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اپنے اپنے مصنوعی سیارے خلا میں بھیج چکے۔ راتوں رات مواصلات کی دنیا کی ماہیئت بدل گئی۔دنیا اس حد تک سکڑ گئی ہے کہ سوچنا محال ہے۔ ٹیلی ویژن ٹیکنالوجی مسلسل تیزی سے ترقی کر چکی ہے۔ اب ایک بٹن دبانے سے مصنوعی سیاروں کے ذریعے ہزاروں چینل دستیاب ہیں۔ اب جو کوئی بھی مواصلات پر کنٹرول رکھتا ہے، وہی اعلیٰ ترین قوت کا حامل ہے۔ صرف ثروت مند گھرانوں کے پاس کوڈک کیمرا ہوا کرتا تھا لیکن اب ہر موبائل فون میں ہائی ڈیفی نیشن کیمرا ہوتا ہے۔ ہر چیز اور واقعے میں سازش دیکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ دستی آلات ہماری ہر حرکت کی مخبری کے لئے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ زراعت، مرغ بانی اور ماہی گیری میں بھی انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ ہارمونز میں تبدیلی کے سائنسی عمل اور جینیات نے پیداوار بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی سائنس دانوں نے مصنوعی گوشت بنا لیا ہے اور یہ امر یقینی ہے کہ اگلے دس سال بعد کسی جانور کو ذبح کرنے کی شاید ضرورت نہیں ہو گی۔

ہتھیار اور جنگی آلات بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب ٹیکنالوجی نیا ہتھیار ہے۔ اب کوئی شخص کیلی فورنیا میں بیٹھے بیٹھے بآسانی مصنوعی سیاروں کے ذریعے افغانستان یا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کسی دہشت گرد کی شناخت کر کے اسے ہلاک کر سکتا ہے۔ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل پیٹریاٹ میزائل کا اگلا قدم بنے، جنھوں نے انھیں بے اثر بنا دیا۔یہ اختتام نہیں آغاز ہے۔ ماہرینِ عمرانیات و ٹیکنا لوجی مرعوب کن پیش گوئیاں کر رہے ہیں جو یکساں طور پر ہیجان خیز بھی ہیں۔ جلد ہی 20پرزوں پر مشتمل برقی انجن 20,000 پرزوں پر مشتمل پٹرول سے چلنے والے انجنوں کی جگہ لے لیں گے، جنھیں تاحیات گارنٹی کے ساتھ فروخت کیا جائے گا اور کسی خرابی کی صورت میں 10 منٹ کے اندر اندر تبدیل کیاجا سکے گا۔ بجلی بھرنے والے چارجنگ اسٹیشن پٹرول پمپوں کو متروک کر دیںگے۔ جلد ہی فوسل فیولزصنعتوں کی جگہ لے کر انہیں ابدی نیند سلا دیں گے۔

شاید سب سے زیادہ حیران کن ترقی طب کے شعبے میں رونما ہو گی۔ جراحی میں روبوٹوں کا استعمال پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، انتہائی ترقی یافتہ اسپتال نازک جراحی کے لئے کمپیوٹر سے چلنے والے روبوٹ استعمال کر رہے ہیں۔ حیاتیاتی انجینئرنگ، جینیات ایک اور سحر انگیز شعبہ ہیں۔کورونا جیسے وبائی مرض سے قطع نظر سائنس داں ذیابیطس، گردوں کا کام چھوڑ دینا اور دل کے امراض جیسی بیماریاں ختم کرنے کی غرض سے انسانی بافتوں کو جانوروں میں پیدا کرنے کے منصوبہ بنا رہے ہیں۔ زراعت میں انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ ایروپونکس زیادہ سے زیادہ کارگر ہوتی جا رہی ہیں، پیٹری ڈِش گوشت پہلے ہی تیار کیا جا چکا ہے جس سے یقینی طور پر مال مویشیوں کے زیرِ استعمال زمین خالی ہو جائے گی، خودکار زراعت فروخت پا ئے گی۔

’’ایکسپونینشل ایج‘‘ اور چوتھا صنعتی انقلاب برپا ہونے کو ہے۔ بہت سی پرانی صنعتیں فنا جب کہ نئی اختراعی قسم کی صنعتیں انھیں چیلنج کرنے کے عمل میں ہیں۔ اختراع اور بہتر ی کے عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ اوبر دنیا کی سب سے بڑی کیب کمپنی ہے جس کے پاس اپنی کوئی کار نہیں، ائیر بی این بی ایک ہوٹل کمپنی ہے جس کے پاس کوئی جائیداد نہیں۔ ہم مسلسل تبدیلی سے دوچار ہیں۔ اعلیٰ کارکردگی کے آفاق و حدود کا تعین ہر لمحہ ازسرِنو ہو رہا ہے۔ میں امید پرست ہوں، ہمیشہ ہر چیلنج میں مواقع دیکھتا ہوں۔ پاکستان کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہمارے پاس ہنر مند افرادی قوت اور نوجوان نسل کے علاوہ فروغ پذیر منڈی بھی ہے۔ اشد ضروری ہے کہ ہم ان ترقیوں کے دوش بدوش رہتے ہوئے اپنا امتیازی مقام حاصل کرنے اور انفرادی و اجتماعی طور پر مستفید ہونے کے لئے اپنی صلاحیتیں انتہائی مربوط اور مؤثر انداز سے استعمال کریں۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین