• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

20صدیاں مکمل ہوچکی ہیں۔ وقت تیزی میں ہےاور ہر گزرتا ہوا دن آئندہ صدی کی طرف لپک رہا ہے جو ہماری اس ’’دقیانوسی‘‘ صدی سے زیادہ برق رفتار اور افرا تفری کا ہے کہ زمانہ اور وقت ہمیشہ آگے کی طرف چلتے ہیں اور زمانے کا ساتھ دینے کیلئے ہمیں بھی قدم سے قدم ملانا ہو گا۔

دور حاضر کی زندگی میں جو اشیاء ہمارے ارد گرد اورمعمولات زندگی کا حصہ بن گئی ہیں، ان میں فریج، ٹی وی ،ٹیپ ریکارڈر، ،ٹیلی فون، موبائل ،کیمرہ، مائیکرویو کے بعد اب کمپیوٹر بھی شامل ہو گیا ہے۔ آپ لندن، پیرس روم کسی بھی بین الاقوامی شہر کا سروے کریں تو وہاں کی اکثریت کمپیوٹر سے واقفیت رکھتی ہوئی ملے گی اور پھر اس ’’مشین‘‘ کے ساتھ وابستہ کاروبار یعنی مختلف النوع قسم کے سافٹ ویئر نے اس کارآمد شے کی ترقی میں پہیے لگا دیئے ہیں۔ اور اگر اپنے اطراف میں موجودہ اشیا ء کا جائزہ لیں تو واحد کمپیوٹر ایسی مشین ہے جو مسلسل تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ نت نئی ایجادات، جدتوں اور اختراعوں نے اس مشین کو ہر دل عزیز بنا دیا ہے۔ استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر میں آسانیاں بھی پیدا ہوتی جا رہی ہیں،کی بورڈ کے بعد مائوس، پھر وائر لیس مائوس متعارف کروایا( ایک ایسا مائوس جسکا کنکشن کمپیوٹر کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ بغیر کسی تار کے آپ کہیں بھی بیٹھ کر کمپیوٹر استعمال کر سکتے ہیں) لیکن خبر یہ ہے کہ اب اس ریموٹ مائوس قسم کی چیز سے بھی نجات مل گئی ہے کہ سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنی ڈریگن نے اکیسویں صدی میں کمپیوٹر کی اہم ترین ایجاد کے لئے بھی آواز سے احکامات وصول کرنے والا سافٹ ویئر متعارف کروا دیا ہے جس کی مدد سے کمپیوٹر آپ کی آواز کی لہروں سے احکام وصول کرسکتا ہے۔ یعنی یہپہلے سے محفوظ 2لاکھ 30 ہزار الفاظ پر مشتمل جملوں کے معنی سمجھنے کے بعد مانیٹر کی اسکرین پر پیغام پرنٹ کرتا رہےگا ۔ اس سے اگر براہ راست کسی پیشے کو نقصان پہنچے گا تو وہ ٹائپسٹ یا کمپوزر خواتین و حضرات ہیں جو اپنی انگلیوںسے روزی کماتے ہیں (پرنٹ میڈیم کے کمپوزر حضرات متوجہ ہوں) یعنی اگر ہم کوئی صفحہ تحریر کرانا چاہیں تو بس کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر بولتے رہیں کمپیوٹر سن کر مانیٹر پر پرنٹ کرتا رہے گا اور اس طرح آپ پورا اخبار پرنٹ کر سکتے ہیں۔

اب ایک دوسری خبر سنئے جس کا تعلق مشین سے نہیں بلکہ جاندار اشیا سے ہے۔ دنیا جہان میں چوہوںسے لوگ پریشان ہیں کہ ان کی تباہ کاریاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ چنانچہ انہیں قابو میں کرنے کیلئے نت نئے شکنجے بنائے جاتے ہیں ایک طرف تو لوگ انہیں پکڑنے کیلئے شکنجے بنا رہے ہیں مگر دوسری طرف پرنسٹن یونیورسٹی کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر جوزف زیڈ سئین نے جینیاتی طورپر ایک ذہین و فطین چوہا تیار کیا ہے یعنی اسکی ذہانت کے جین میں اضافہ کر کے ایک ذہین چوہا جس کا نام اس نے ’’ڈوگی‘‘ رکھا ہے ،اسےتجربہ گاہ میں تیار کیا ہے۔ اس ذہانت کیلئے ڈاکٹر جوزی نے دماغ کی جس جین میں ردوبدل کیا ہے اسکا نام این ڈی ایم اے رکھا ہے۔ اس جین کا کام ذہانت اور یادداشت کے دروازے کھولنا اور بند کرنا ہے یعنی کوئی بھی بات،واقعہ، حادثہ جو آپ کو یاد رکھنا ہوتا ہے وہ دماغ کے اسٹور روم میں اس دروازے ہی سے داخل ہوتا ہے۔اگر یہ دروازہ نہ کھلے تو کوئی چیز یاد نہیں رہتی۔ حتیٰ کہ آپ اپنا نام تک بھول سکتے ہیں۔ جب تک انسان جوان اور صحت مند رہتا ہے تب تک یہ دروازہ بڑی مستعدی سے اپنا کام سر انجام دیتا ہے لیکن جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور وہ بوڑھا ہوتا جاتا ہے یہ دروازہ کمزور ہوتا جاتا ہے جس کی مثال بوڑھے افراد میں کمزور یادداشت سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر جوزی نے اپنی تحقیق سے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ چھوٹے بچوں میں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے یہ دروازہ بہت بہتر کام کرتا ہے۔ جسکی مثال بچوں کی زبان سیکھنے کی صلاحیت سے بھی ہے کہ بچے ابتدائی عمر میں انتہائی تیزی سے سیکھتے ہیں، ان سب تحقیقات اور تجربات کا تعلق اب تک صرف ’’ڈوگی ‘‘ سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ تجربہ انسانوں پر بھی اسی طرح کامیاب رہے گا؟ کہ جینیاتی انجینئرنگ اس وقت جس درجہ کمال تک پہنچ گئی ہے، اس کے پیش نظر اس قسم کی خوش آئند پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔

پابند مقدر ہوکر بھی ہر چیز پہ قادر ہے انسان

مجبور کا جب یہ عالم ہے مختار کا عالم کیا ہو گا

تازہ ترین