پروفیسرسرفراز خان نیازی
(ستارۂ امتیاز) یونورسٹی آف الینوئے شکاگو
اس بات پر یقین کر لیں کہ تمام ویکسین محفوظ ہیں،سامنے آنے والے منفی اثرات نہ ہونےکے برابر ہیں
کورونا وائرس(COVID-19) کی وبا سے اب تک تقریباً چالیس لاکھ افراد کی ا موات ہو چکی ہیں۔ دنیا کی کل آبادی تقریباً آٹھ ارب ہے،اس لیے چالیس لاکھ کی تعداد کچھ زیادہ نہیں لیکن اگر اس وبا کی روک تھام کے لیے تیزی سے اقدامات نہ کیے گئے تو انسانیت کی تباہی کے لیے مزید خطرہ ہوسکتی ہے ۔تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ یورپ میں 1346 سے 1353 تک ’’کالی موت ‘‘ کا قحط آیاتھا ، اس نے یورپ کی تقریبا ً آدھی آبادی ختم کردی تھی۔ اسی طرح سو سال قبل’’ ہسپانوی فلو‘‘ جو نیو یارک سے شروع ہوا۔ اس نے دنیا کی5 فی صد آبادی کو ختم کر دیا تھا۔
پوری دنیا میں کوویڈ 19 نے تباہی مچادی ہے ۔ یہ وائرس سانس کے ذریعہ پھیلتا ہے ۔ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وائرس کا شکار ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں اب یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ یہ وبا ختم ہو رہی ہے۔ کتنے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ وبا ختم ہو رہی ہے،وہ اس کا دوبارہ شکار ہو گے۔ مثلاً ویت نام، آسٹریلیا، ٹایوان اور ہندوستان۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ویکسین کی سپلائی کا ،اُس کا آج یہ حال ہے کہ اپنےہی ملک بھی اپنی ضروریات پوری نہیں کر پا رہا ہے۔
صرف دو طریقے ہیں اس وبا کو قابو کرنے کے لیے۔ ایک یہ کہ اس کا پھیلائو روکا جائے اور دوسرا ویکسین کا استعمال۔ کوئی بھی دوا یا ٹوٹکا اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ پھیلائو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم آپس میں کچھ فاصلہ رکھیں، تاکہ وائرس ہمارے سانس میں داخل نا ہو سکے۔ ماسک پہننا مزید مفید ثابت ہوتا ہے۔ ویکسین کا استعمال بھی اسی وقت مفید ثابت ہوتا ہے جب70 فی صد آبادی کو ویکسین لگ جائے۔
اس تک پہنچنے کے لیے پاکستان کوکم از کم دو کروڑ ویکسین درکار ہیں، چوں کہ پاکستان میں یہ ویکسین نہیں بنتی ہے اس لیے ہمار سارا دار ومدار ان ممالک پر ہے جو ہمیں یہ دے سکتے ہیں۔ یہ بڑا قیمتی موقعہ ہے کہ ہم اس بات کا تہیہ کر لیں کہ ہم ویکسین کے معاملہ میں خود کفیل ہو جائیں، کیوں کہ یہ آخری وبا نہیں ہے۔
عام طور پر ویکسین بنانے کا کاروباردواساز کمپنیوں کے لیے اتنا فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا ۔ امریکی حکومت نے اربوں ڈالر صرف کیے اس مد میں۔اس وبا کو روکنے میں ایک اور مشکل در پیش ہے، وہ ہے افواہوں کا پھیلائو اوران لوگوں کے جعلی بیانات جو قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں۔جیسا کہ سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشورہ دیا کہ آپ کپڑوں کو سفید کرنے کا کیمیا پی لیں اور بالائے بنفشی روشنی جسم میں ڈالیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم مودی نے کہاکہ ،گھر سے باہر نکل کر پتیلیاں بجائو اور برازیل کے صدر نے یہ احتجاج کیا کہ، ویکسین سے انسان گھڑیال بن جائیں گے اور عورتوں کے چہرے پر بال آنا شروع ہو جائیں گے۔
بےشمار لوگ تو اس کو وبا ہی نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ یہ حکومتوں کی تشہیر ہے۔ مشہور لوگوں کے نام پر جعلی ویڈیو بنا کر منظر عام پر لائی جارہی ہیں جن میں وہ یہ تک کہہ رہے ہیں کہ یہ ویکسین دو سال میں ہر شخص کی جان لے لے گی۔ پاکستان میں ایک عرصے سے ویکسین کے خلاف مہم جاری ہے۔ اگراس مہم کوروکا نہیں گیا تونتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔اس وائرس کی ابتدا چین سے ہوئی کہا گیاکہ یہ چمگادڑ سے لگا ہے۔ وجہ جاننے کی تحقیق جا رہی ہے۔
وائرس کی بے شمار اقسام ہیں اور ہر ایک زندہ چیز کے اندر پائےجاتے ہیں لیکن یہ نقصاندہ نہیں ہوتے،البتہ ایک نوع سے دوسری نوع میں جا کر یہ خطرناک بن سکتے ہیں۔ وائرس زندہ چیز نہیں ہے یہ محض ایک کیمیائی مادّہ ہے جو ہمارے خلیوں کو مجبور کرتا ہے ، اس کی کاپی بنانے پر۔آخر کار خلیے پھٹ کروائرس اور خلیوں میں داخل ہوجاتا ہے۔حال میں ایک نئ ویکسین بھی دریافت ہوئی جو بہت محفوظ ہے۔ اسے لگا نے کے بعد ہمارا جسم اصل وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
باوجود اس کے اگر وائرس اپنی شکل بھی بدل لے لیکن اس مقام پر پہنچنے کے لیے بیشتر لوگوں کو ویکسین لگانا ضروری ہو گی۔فی الوقت پاکستان میں 2 فی صد سے بھی کم لوگوں کو ویکسین لگی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ماسک پہنیں، جب تک ویکسین نا لگ جائے۔یہ ویکسین بچوں کو بھی دینی چاہیے۔ فی الحال 12 سال سے زائد عمر کے بچوں کو ضروری لگانی چاہیے۔ کیوں کہ اب کورونا وائرس کے اثرات بچوں میں بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حال ہی میں کچھ مضر اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔
مثلاًخون کا جم جانا جو مہک ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اثرات دوائوں کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ ویکسین نئی ہے اور اس کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ کروڑوں لوگوں کو یہ ویکسین دی جا چکی ہے تو جو بھی منفی اثرات سامنے آرہے ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس بات پر یقین کر لیں کہ ساری ویکسین محفوظ ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم افواہوں اور اُلٹے سیدھے بیانات ،ٹوٹکوں وغیرہ پر توجہ نہ دیں ۔ یہ وبا پہلی مرتبہ ہماری زندگی میں آئی ہے۔ ضرورت قسمت آزمانے کی نہیں ہے ضرورت حکمت آزمانے کی ہے۔