• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ لوگ صاحب کتاب تو بن جاتے ہیں لیکن صاحب علم نہیں بن پاتے ۔ ایس ایم ظفر صاحب ہمارے ان چند صاحبان کتاب میں سے ایک ہیں جو صاحب علم بھی ہیں۔ مجھ ناچیز کیلئے ایس ایم ظفر استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ میری خوش قسمتی تھی کہ ایس ایم ظفر صاحب کی کتابیں میرے والد کی لائبریری میں موجود تھیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے زمانہ طالب علمی میں ایس ایم ظفر کی دو کتابیں ”ڈکٹیٹر کون ؟“ اور ”عوام پارلیمینٹ اسلام “ ناصرف میں نے خود پڑھیں بلکہ اپنے والد کو بتائے بغیر کچھ دوستوں کو بھی پڑھا ڈالیں اور پھر ہم آپس میں یہ بحث کیا کرتے کہ جنرل ایوب خان کا وزیر قانون جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کو برا کیوں سمجھتا ہے ؟ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ جب میں میدان صحافت میں آیا تو ایس ایم ظفر صاحب کے ساتھ احترام کا رشتہ قائم ہو گیا ۔ ان کی نئی کتاب ” سنیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی انکی اپنی زبانی “ نے میری نظروں میں ان کے احترام کو مزید بڑھا دیا ہے کیونکہ اس کتاب میں انہوں نے بڑی دیانت اور متانت کے ساتھ اپنے کچھ کردہ اور نا کردہ گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ انہوں نے بطور سنیٹر 2003ء سے 2012ء تک نوبرس کے اہم سیاسی واقعات کو قلم بند کیا ہے ۔ انکی یہ کتاب ایک ایسی فلم کی مانند ہے جو ایکشن اور سسپنس سے بھرپور ہے لیکن اس فیچر فلم کا اختتام ایک ٹریجڈی پر ہو رہا ہے ۔ ایس ایم ظفر نے اس ٹریجڈی کو بیان کرنے کی بجائے ٹریجڈی روکنے کا طریقہ لکھ کر کتاب ختم کر دی ہے ۔
ایس ایم ظفر صاحب ہمارے ان بزرگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم  کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔ عالم جوانی میں انہوں نے پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کا وزیر قانون بن کر ایک غلطی تو کر ڈالی لیکن پھر تحریک نظام مصطفی میں نوابزادہ نصراللہ خان اور نواب اکبر بگٹی کے ہمراہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید کاٹ کر غلطی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش بھی کی۔
ایس ایم ظفر صاحب نے 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات کی مخالفت کی تھی ۔ ان کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیاء نے غیر جماعتی انتخابات کیلئے مرحوم پیر پگاروکے ساتھ ملی بھگت کر رکھی تھی اور اسی ملی بھگت نے سیاست میں کئی برائیوں کو جنم دیا ۔ 2003ء میں ایس ایم ظفر صاحب سنیٹر بنے تو میں اخبار کے ایڈیٹر سے ٹی وی اینکر بن چکا تھا ۔ میری صحافت کا آغاز جنرل ضیاء کے دور میں ہوا تھا ۔ 2003ء جنرل پرویز مشرف کا دور تھا ۔ جب ایس ایم ظفر سنیٹر بنے تو وہ میری خصوصی توجہ کا مرکز تھے میں دیکھنا چاہتا تھا کہ انہوں نے کتابوں میں جو کچھ لکھا وہ کر کے بھی دکھاتے ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے کتاب میں بہت سے واقعات بیان کئے ہیں، کچھ واقعات کا میں بھی عینی شاہد ہوں اور ان واقعات کو کتاب کا حصہ بنا کر انہوں نے ہماری سیاسی تاریخ کے اہم ابواب کو محفوظ کر دیا ہے لیکن کتاب کے آخر میں انکی زوردار وارننگ نے مجھے پریشان کر دیا۔ کتاب ختم کرکے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سوچنے لگا کہ ایس ایم ظفر صاحب نے پچھلے نو برس کے واقعات بیان کرنے کے بعد اگلے پانچ برس کے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا ان خدشات کو لکھتے ہوئے یقیناان کا قلم کئی بار کانپا ہو گا کیونکہ ان کی کتاب کی آخری سطریں پڑھتے ہوئے میرا دل بہت بری طرح کانپ گیا۔
ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب کے آخری باب میں پاکستان اور بھارت کا تقابلی جائزہ لیا ہے ۔ دونوں ممالک ایک ساتھ آزاد ہوئے بھارت نے 1951ء میں آئین بنا لیا لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے آئین بنانے والی اسمبلی کو تحلیل کر دیا اور 1956ء میں جب آئین آیا تو دو سال بعد مارشل لاء لگ گیا مارشل لاء نے پاکستان کو کمزور کر دیا ۔ پاکستان ٹوٹ گیا لیکن ہم نے سبق نہ سیکھا ۔ ہم نے کچھ اداروں کو مضبوط کیا لیکن ریاست کو کمزور کر دیا ۔ ہم نے حکمران اشرافیہ کو امیر کر دیا لیکن ریاست کو غریب کر دیا۔ ایس ایم ظفر صاحب لکھتے ہیں کہ کرپشن اور دہشت گردی نے پاکستان کو بری طرح مجروح کر دیا ہے پاکستان ایک مملکت کے طور پر چلتا رہے گا لیکن اس مملکت کیلئے مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ ایس ایم ظفر صاحب کو اگلے پانچ برس میں بہت مشکلات نظر آ رہی ہیں اس کے بعد کچھ نظر نہیں آتا۔ لکھتے ہیں پانچ برس کے بعد دھند ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ملک چلتا رہے گا لیکن خطرہ ہے کہ قوم نہیں رہے گی ۔انہوں نے لبنان اور یوگو سلاویہ کی مثالیں دیکر ہمیں جگانے کی کوشش کی ہے ۔ لبنان میں ریاست موجود ہے لیکن قوم فرقہ وارانہ اور نسلی گروہوں میں بٹ کر خانہ جنگی کا شکار ہے ۔ یوگوسلاویہ میں جب قوم بکھری تو ریاست بھی بکھر گئی ایس ایم ظفر صاحب نے لکھا ہے کہ پاکستان کو بچانے کیلئے کچھ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ۔ ان کے نزدیک کارگل کی جنگ آج بھی ایک معمہ اور ناسور ہے ۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کارگل کی انکوائری کی جائے ورنہ کارگل کا منحوس سایہ ملکی سیاست پر چھایا رہے گا ۔ انہوں نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان کو بچانے کیلئے عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو کرپشن پر قابو پانا ہو گا ۔ دہشت گردی کے خلاف ایک متفقہ قومی پالیسی بنانا ہو گی اور علماء کرام کو فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے موثر کردار ادا کرنا ہو گا ۔ اگر ہم اگلے پانچ برسوں میں یہ سب نہ کر سکے تو پھر ناپسندیدہ نتائج سے ہمیں کوئی بچانے نہ آئے گا ۔ ان ناپسندیدہ نتائج کو ایس ایم ظفر بیان نہیں کر پائے کیونکہ وہ پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن بین السطور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں خدارا ! سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرو۔
ایس ایم ظفر نے سیاست میں خفیہ اداروں کے کردار کو بھی اپنے انداز میں بے نقاب کیا ہے ۔ لکھتے ہیں کہ مارچ 2003ء میں مسلم لیگ (ق)اور ایم کیو ایم کے 54نئے سنیٹر صاحبان کو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق کے پاس لیجایا گیا اور وہاں ہمیں چودھری شجاعت حسین نے بتایا کہ محمد میاں سومرو سینٹ کے آئندہ چیئرمین ہوں گے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیاہے کہ سابق چیف جسٹس ناظم صدیقی اپنی مدت ملازمت میں خود ہی دو سال کی توسیع کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے کچھ ساتھی جج اس حق میں نہ تھے اور انہوں نے جسٹس ناظم صدیقی کو اس اقدام سے باز رکھنے کیلئے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق کے ساتھ رابطے قائم کر رکھے تھے ۔ ایس ایم ظفر صاحب نے یہ تفصیل بھی بیان کی ہے کہ کس طرح غیر ملکی دباؤ پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہیرو سے ولن بنانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔ آئی ایس آئی نے ایس ایم ظفر کو یقین دلایا کہ ڈاکٹر صاحب کی بے عزتی نہیں ہو گی لیکن پھر ان کی بے عزتی کی گئی ۔ جنرل احسان الحق نے ڈاکٹر قدیر اور ایس ایم ظفر کی ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپیں جنرل مشرف کو پیش کرکے نوکری پکی کی ۔ جو کام ڈاکٹر قدیر اکیلئے کر رہی نہ سکتے تھے اسکی ایف آئی آر صرف ڈاکٹر صاحب پر کاٹی گئی پھر انہیں معاف کرکے گھر پر نظربند کر دیا گیا ۔قوم کی عزت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو غیروں کے ہاتھ بیچنے والے حکمران نے ڈاکٹر قدیر پر قومی راز بیچنے کا الزام لگایا ۔ مکافات عمل دیکھئے آج اس وطن فروش کو آرٹیکل چھ کا سامنا ہے ۔ جنرل مشرف نے صرف ڈاکٹر قدیر کو پکڑا اور ان کے مبینہ جرائم میں معاونت کرنے والوں کو نظرانداز کر دیا ۔ آج نواز شریف حکومت بھی آئین توڑنے کے الزام میں صرف مشرف پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے مشرف کی معاونت کرنے والوں کو نظرانداز کرنا چاہتی ہے ۔ نواز شریف فوج کو بچانا چاہتے ہیں مشرف فوج کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔
ایس ایم ظفر نے کئی مرتبہ مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کیخلاف ریفرنس واپس لیکر انہیں بحال کر دو لیکن مشرف نہیں مانے اور آخرکار خود جلاوطن ہو گئے ۔ ظفر صاحب نے مشرف کو لندن جاکر دو مرتبہ یہ مشورہ دیا کہ پاکستان واپس مت جائیے گا لیکن مشرف کی فیس بک پر موجود پرستار انہیں واپس پاکستان کھینچ لائے ۔ مشرف نے ایس ایم ظفر کا مشورہ نہیں مانا اور غداری کے مقدمے میں پھنس چکے ہیں لیکن پاکستانی قوم کو ایس ایم ظفر کا مشورہ مان لینا چاہئے ۔ ایس ایم ظفر نے بطور سنیٹر کئی مرتبہ لاپتہ افراد کیلئے سینٹ میں آواز اٹھائی ۔ اپنی کتاب میں بھی اس مسئلے کے حل کی ضرورت پر انہوں نے زور دیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے ۔ انہوں نے قوم سے گزارش کی ہے کہ بلوچستان کو قائد اعظم کی نظروں سے دیکھو ۔ قائد اعظم نے اپنے مشہور 14نکات میں مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان کو برٹش انڈیا کے دیگر صوبوں کے برابر حقوق دیئے جائیں ۔ اگر آج بلوچستان کو پاکستان کے دیگر صوبوں کے برابر حقوق دیدیئے جائیں تو پاکستان کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔ ایس ایم ظفر صاحب نے وارننگ دیکر اپنا کام کر دیا ۔ باقی کام آپ کو اور ہمیں کرنا ہے ۔ پاکستان کو لبنان اور یوگو سلاویہ بننے سے بچانا ہے ۔(شہر اقبال فورم کے زیر اہتمام ایس ایم ظفر کی کتاب کی تقریب رونمائی منعقدہ اسلام آباد میں پڑھا گیا)
تازہ ترین