• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14جون کا دن دنیا بھر میں رضا کارانہ طور پر خون عطیہ کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد صحت مند افراد کو خون کے عطیات رضا کارانہ طور پر دینے کی طرف مائل کرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جن کی آبادی پوری دنیا کی آبادی کا صرف 19فیصد ہے، خون کی ضروریات رضا کارانہ طور پر دیے گئے خون کے عطیات سے پوری ہو جاتی ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، خون کے عطیات کا دارومدار فیملی ڈونرز یا کسی دوسرے ذرائع سے حاصل کر دہ خون پر ہوتا ہے۔

پاکستان میں بوجہ غیر معیاری انتقالِ خون عوام الناس کو بےشمار بیماریوں جیسے ہیپا ٹائٹس بی، سی اور ایچ آئی وی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان بیماریوں کی بڑی وجوہات ناقص اسکرنینگ، غیرمعیاری خون کی منتقلی کا سامان اور غیرتربیت یافتہ عملہ ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں خون کے اجزا (سرخ خلئے، پلازمہ اور پلیٹ لیٹس) کی بجائے ہول بلڈ (Whole Blood) استعمال کیا جاتا ہے، جس سے خون کا ضیاع ہوتا ہے، نجی اور سرکاری سطح پر جن میں سندس فاؤنڈیشن، آرمڈ فورسز، انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسفیوژن اور دیگر چند ادارے ہی فعال ہیں جہاں محفوظ اور صاف خون میسر ہے۔ پاکستان میں تقریباً 25،30لاکھ بلڈ یونٹس کی سالانہ ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صرف 1.3فیصد لوگ رضاکارانہ اور تسلسل کے ساتھ خون دیں تو پاکستان میں مریضوں کی خون کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اور سرکاری سطح پر اچھی اسکریننگ، معیاری سامان اور تربیت یافتہ عملہ بھی ضروری ہے۔یاد رہے کہ انسان کے اندر موجود سرخ خون (خلئے) کی عمر صرف 120دن ہوتی ہے جس کے بعد پرانے خون کی جگہ نیا خون قدرتی طور پر بن جاتا ہے، پرانے خون کو ضائع ہونے سے پہلے اگر کسی ضرورت مند مریض کو دیا جائے تو اس کی زندگی بچ سکتی ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بےشمار فوائد ہیں جیسا کہ خون دینے سے کینسر اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ 80فیصد کم ہو جاتا ہے۔ اس سے وزن میں کمی آتی ہے۔ صحت بہت اچھی ہو جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر دوسروں کی زندگی بچا کر ایک انجانی سی خوشی ملتی ہے۔ خون کا عطیہ دینے کے 24گھنٹوں کے اندر پلازمہ کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔

کوویڈ وبا میں محفوظ خون کی فراہمی خطرے میں ہے۔ باقاعدگی سے خون کے عطیات کی مہم ملتوی کی جا رہی ہے اور گھر میں رہنے کے احکامات اور انفیکشن کا خوف عطیہ دہندگان کو خدمات تک رسائی کے لئے روک رہا ہے۔ خون کی مسلسل فراہمی میں رکاوٹوں نے خون کے عطیات اور اس سلسلے میں درکار اہم آلات کی قلت کے خطرے سے بھی دوچار کر دیا ہے۔ رضاکارانہ خون دینے والوں کی بہت کمی ہو چکی ہے۔ خاص طور پر تھیلے سیمیا، ہیمو فیلیا اور دوسرے چند ایسے امراض جس میں مریضوں کی زندگی کا سارا دار ومدار خون کی بروقت فراہمی پر ہوتا ہے، کو بےحد مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکل حالات میں سندس فاؤنڈیشن اپنے مریضوں کو صاف اور صحت مند خون کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ سب دعوتِ اسلامی، پنجاب پولیس، موٹروے پولیس اور اسلام آباد پولیس جیسے اداروں کی بدولت ہے۔ یہاں عوام الناس سے یہ اپیل ہے کہ سندس فاؤنڈیشن کے تھیلے سیمیا اور ہیمو فیلیا کے لئے بڑھ چڑھ کر خون کے عطیات دیں۔ آپ کا عطیہ کیا گیا خون ان معصوم بچوں کے دل دھڑکنے کے لئے لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے اس سال اس دن کا موضوع Give Blood and Keep the World Beatingہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خون عطیہ کر کے دنیا کو چلتا رہنے میں مدد کریں۔

پاکستان میں خون کے شعبے کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے حکومتِ پاکستان نے 2010میں جرمنی کی امداد سے سیف بلڈ ٹرانسفیوژن پروگرام (SBTP)شروع کیا تھا، جس کے تحت خون کا ایک مرکزی نظام، سرکاری اسپتالوں کے خون لینے، صاف کرنے اور منتقل کرنے کے عوامل کو بہتر بنانا تھا لیکن 10سال کی امداد کے باوجود یہ پروجیکٹ صرف 15فیصد ہی نتائج حاصل کر سکا ہے۔ میری حکومتِ پاکستان اور سارے اسٹیک ہولڈرز سے اپیل ہے کہ خون کی بہتری کی اصلاحات کے عمل کو قومی وسائل اور عزم کے ساتھ بلاتعطل جاری رکھا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ عطیۂ خون کی اہمیت سے متعلق مضمون کو نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ اس کی اہمیت کو جان کر ملک میں محفوظ اور شفاف خون تک رسائی عام آدمی کو بھی میسر ہو۔ اپنے لئے کون نہیں جیتا مگر دوسروں کے لئے جینا اصل زندگی ہے۔ دوسروں کے لئے جینے والوں میں وہ لوگ ہی شامل ہیں جو کسی کی زندگی بچانے کے لئے خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ مشکل وقت میں ان کا یہ عطیہ کئی ڈوبتی زندگیوں کو بچا سکتا ہے پھر زندگی کی جنگ جیتنے کے بعد کسی کے دل سے نکلی ہوئی ایک چھوٹی سی دُعا ایسے لوگوں کو بہت سی مشکلات سے بچا سکتی ہے۔

(صاحبِ تحریر ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل اورڈائر یکٹر سُندس فاؤنڈیشن ہیں)

تازہ ترین