کراچی (بابر علی اعوان / اسٹاف رپورٹر) ضلع وسطی میں کورونا ویکسین کے غیر منصفانہ استعمال پر تادیبی کاروائی نہ ہونے کے بعد ویکسین کی فروخت کا مکروہ دھندہ شروع ہو گیا ہے ۔ اس دھندے کا انکشاف استعمال شدہ ویکسین کے وائلز تلف کرنے کے دوران ہوا۔
جنگ کو موصول دستاویزات کے مطابق 31مئی کوضلع وسطی کے کورونا ویکسی نیشن سینٹر سندھ گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی کے فوکل پرسن ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی نے تحریری طور پراستعمال شدہ ویکسین کے 703 وائلز تلف کرنے کی درخواست کی تاہم جب حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام (ای پی آئی) کے حکام نے ان وائلز کی گنتی کی تو اس میں سے 240 وائلز کم نکلے جس پر حکام نے چپ سادھ لی۔
اگلے روزیکم جون ایک بار پھر 734 وائلز تلف کرنے کی تحریری درخواست کی گئی تاہم تلف کرنے سے قبل گنتی کے دوران 281 وائلز کم پائے گئے ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور 2 جون کو 224، 3 جون کو 215 جبکہ 4 جون کو 153 وائلزغائب نکلے ۔
یوں صرف 5 دنوں کے دوران 1 ہزار 113 وائلز کا غبن سامنے آیا۔ ذرائع کے مطابق یہ ویکسین فروخت کر دی گئیں اور خفیہ رکھنے کے لئے تحریری طور پروائلز کی تعداد زیادہ دکھائی گئی تاکہ فروخت شدہ ویکسین سرکاری کھاتے میں ظاہر ہو کر ریکارڈ کا حصہ بن جائے ۔ ذرائع کے مطابق اس ساری کاروائی میں مبینہ طور پر آفس اسسٹنٹ اور ویکسی نیٹر ملوث ہیں۔
اس ضمن میں ڈی ایچ او سینٹرل ڈاکٹر مظفر اوڈھو کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسی کوئی رپورٹ نہیں آئی اور ویکسین کا 100فیصد منصفانہ استعمال ہو رہا ہے ۔ یاد رہے کہ آفس اسسٹنٹ آفاق الدین پر اس سے قبل ویکسین کا غیر منصفانہ استعمال ثابت ہوچکا ہے لیکن تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش کے باوجود تاحال اسے معطل کرکے محکمہ جاتی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔