سندھ کابینہ کے اجلاس کے دوران زرعی ٹیکس نفاذ کی منظوری پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، کابینہ کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔
سندھ کابینہ کے آج ہونے والے اجلاس کے دوران بیشتر اراکین نے صوبوں میں وفاق کے زرعی ٹیکس نفاذ کو صوبائی خود مختاری میں مداخلت قرار دیا۔
کابینہ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زرعی ٹیکس میں صنعتوں کے برابر ٹیکس لگانا زرعی شعبے سے زیادتی ہوگی، زرعی شعبہ صنعتی شعبے کی طرح ریگیولیٹ نہیں ہوتا، اس لیے اس پر ٹیکس لگانا زیادتی ہے، زرعی شعبے میں ہاری (کسان) 50 فیصد کا حق دار ہوتا ہے جبکہ صنعت میں تنخوا دار ہوتا ہے۔
کابینہ اراکین نے کہا کہ صنعتی شعبے میں ورکر کی کوئی حصے داری نہیں ہوتی وہ صرف تنخواہ دار ہوتا ہے۔
کابینہ اراکین نے سوال اٹھایا کہ اس ٹیکس کے بعد ہمارے حلقوں کے کاشت کار ہم سے سوالات کریں گے تو کیا جواب دیں گے؟
سندھ کابینہ کے ارکان نے20 کروڑ روپے کی سالانہ زرعی آمدنی پر صرف 2 فیصد ٹیکس لگانے پر بھی احتجاج کیا۔
ذرائع کے مطابق کابینہ اجلاس کے دوران ارکان نے کہا کہ زراعت پر ٹیکس لگانا ہی زیادتی ہے، بیشتر اراکان نے وفاق کے زرعی ٹیکس کے نفاذ کو صوبائی خود مختاری میں مداخلت قرار دیا۔
کابینہ اراکین نے درخواست کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ اس معاملے پر پہلے وفاقی حکومت سے بات کریں۔
جس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کابینہ اراکین کو کہا کہ میں وزیرِاعظم سے بات کروں گا، مگر زرعی ٹیکس لگانا قومی مفاد میں ہے، زرعی ٹیکس کو منظور کرنا ملک کے بہتر مفاد میں ہے۔
اجلاس کے دوران مراد علی شاہ کو بار بار کابینہ ارکان سے زرعی ٹیکس کی منظوری کے لیے درخواست کرنی پڑی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی شرط پر صوبائی حکومتوں سے زرعی ٹیکس لگوانا چاہتی ہے۔
کافی بحث کے بعد سندھ اسمبلی نے سندھ ایگریکلچرل انکم ٹیکس ایکٹ بل منظور کر لیا جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس کل دوپہر 2 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
سندھ ریونیو بورڈ نے زرعی شعبے پر ٹیکس سے متعلق تفصیلات جاری کر دی ہیں۔
سندھ کابینہ سے منظور زرعی ٹیکس کی تفصیلات کے مطابق کاشت کاری پر ایڈوانس انکم ٹیکس ختم، 6 لاکھ تک سالانہ زرعی آمدن انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگی، 56 لاکھ سے زائد سالانہ آمدن پر 45 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔
تفصیلات کے مطابق 20 کروڑ روپے سالانہ تک کی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہو گا، 20 سے 25 کروڑ کی زرعی آمدنی پر 2 فیصد اور 25 سے 30 کروڑ روپے کی آمدنی پر 3 فیصد زرعی ٹیکس لگے گا.
اسی طرح 30 سے 35 کروڑ روپے زرعی آمدنی پر 4 فیصد، 35 سے 40 کروڑ روپے سالانہ آمدنی پر 6 فیصد اور 40 سے 50 کروڑ روپے زرعی آمدنی پر 8 فیصد ٹیکس لگے گا، زیادہ سے زیادہ ٹیکس 10 فیصد ہو گا جو کہ 50 کروڑ اور اس سے زائد زرعی آمدنی پر لگے گا۔