عدالت نے نسئلہ ٹاور اور الہ دین پارک شاپنگ سینٹر گرانے کے متعلق تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کے ڈی اے رپورٹ کے مطابق 2 نجی اسپتال رفاہی پلاٹ پر قائم ہیں، رفاہی پلاٹس پر قائم نجی اسپتال مالکان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ رفاہی پلاٹ پر کیسے نجی اسپتال چلایا جارہا ہے؟
حکم نامے کے مطابق شوکاز نوٹس کے متن میں کہا گیا کہ کیوں نہ دونوں اسپتالوں کی عمارتیں توڑی جائیں۔
عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے سے بلاول ہاؤس کے سامنے 3 ، 4 اور 5 کوم کے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ پلاٹ کہکشاں اسکیم میں کب اور کس نے الاٹ کئے اور موجودہ اسٹیٹس کیا ہے؟۔
عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے سے کراچی بھر میں ایس ٹی پلاٹ کی تفصیلات بھی طلب کرلیں جبکہ پویلین کلب اور شاپنگ سینٹر گرانے کے متعلق کمشنر کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ ایس ٹی پلاٹ کتنے ایریا پر ہیں اور کس مقصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟
تحریری حکم نامے کے مطابق پویلین کلب اور الہ دین پارک شاپنگ سینٹر گرانے کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی ہے اور کمشنر کراچی کو الہ دین پارک کا انتظام سنبھالنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق آفیشل اسائینی کی جانب سے پارک نیلامی کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا گیا اور الہ دین پارک کو اصل صورت میں بحال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تحریری حکم نامے کے مطابق پارک کے کسی بھی حصہ پر کمپنی یا کسی شخص کے استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
عدالت نے وفاقی وصوبائی حکومت سے اورنگی و گجر نالہ متاثرین کی بحالی کے لئے پلان طلب کرلیا، جبکہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو پلان پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
کراچی کو پانی فراہمی کے فور منصوبہ اکتوبر 2023 تک مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
واپڈا چیئرمین نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ کے فور منصوبے میں مزید تاخیر نہیں ہوگی۔
عدالت نے کے فور منصوبے میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو رکاوٹیں ختم کرنے کی ہدایت کردی۔