• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دولت کے انبار، عالیشان محلات ، نوکروں کی فوج ظفر موج ، نعمتوں اور آسائشوں سے لدی آمنہ تاثیر ، مگر آنسو ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لیتے ۔ بے چینی ہے کہ تھمتی نہیں۔ 4 جنوری 2011 ء کو اُس کا سہاگ اُس سے چھین لیا گیا، خاوند کے زخم مندمِل نہ ہوئے تھے کہ ٹھیک سات مہینے 22 دن بعد آمنہ کا جگر گوشہ شہباز اغوا کر لیا گیا ۔ 22 ماہ گزر گئے ، شہباز کا اتا نہ پتہ ۔ آنکھوں کا نور سامنے نہیں تو بھاڑ میں جائیں ساری نعمتیں، اولاد سا سکون ہمالیہ سے بلند سونے کا پہاڑ بھی دے سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، دنیا والو یہ غم کوئی نہیں جان سکتا سوائے اُن کے جن کے پیارے اُن سے چھین لئے گئے۔ جو مفقود الخبر ہیں اور جن کے چاہنے والے بظاہر چلتے پھرتے زندہ انسان مگر درحقیقت پتھر کی مورتیاں۔
9مئی2013ء کو حیدر گیلانی اپنی انتخابی مہم میں مصروف، فرخ کالونی ملتان کے ایک گھر سے جونہی باہر نکلتے ہیں نامعلوم افراد اُنہیں دبوچ کر کار میں ڈال کر فرار ہو جاتے ہیں فائرنگ کے نتیجے میں حیدر گیلانی کے ذاتی محافظ و سیکرٹری امین اور مُحی الدین موقع پر ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ امین اور مُحی الدین کے ورثا کفن دفن کے بعد روئے دھوئے مگر کچھ دِن بعد اُن کو صبر آ ہی گیا مگر کون بے چین ہے؟ کس کی نیند اڑ گئی؟ کون مارا مارا پھر رہا ہے؟ کس نے کہا کہ عدلیہ کو میرے بیٹے کے اغوا کا بھی ازخود نوٹس لینا چاہئے تھا؟ یہ مطالبہ کسی جھونپڑی میں رہنے والے بے اختیار فرد نے نہیں کیا،یہ التجا تو جناب یوسف رضا گیلانی کر رہے ہیں۔ بہت دور کی بات نہیں، ماضی بعید کا قصہ نہیں 19 جون 2012 ء تک جن کے اشارہ ابرو پر ہر حکم بجا لایا جاتا تھا، وہ وزیراعظم تھے تو نہ جانے کیا کیا قصے اُن سے منسوب کئے گئے اور بے شمار الزامات بھی۔ کل تک لا محدود اختیارات کے مالک، آج بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔
حیدر گیلانی کے والد یوسف رضا گیلانی کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں۔ آمنہ مسعود تو خاوند کے دُکھ کو لے کر بیٹھ نہیں گئی بلکہ ” ڈیفنس آف ہیومن رائٹس“ کا پلیٹ فارم بنا کے سیکڑوں ”غائب کر دےئے گئے افراد“ کا مقدمہ ہر فورم پر لے کر پہنچ رہی ہے، فوزیہ گیلانی کو تو آمنہ مسعود جتنی ہمت بھی نہیں۔ حیدر ماں اور باپ کی کمر توڑ گیا، حیدر کے چاہنے والوں کا سُکھ چین لوٹ لیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی صاحب آپ کا درد کسے معلوم نہیں ۔ دُکھ اور بے چینی کسے محسوس نہیں ہو رہی؟ خدا کی زمین پر ایک بھی دردِ دل رکھنے والا نہ ہو گا جو آپ کے کرب کو محسوس نہ کرتا ہو۔ حیدر آپ ہی کا نہیں ہمارا بھی بیٹا ہے مگر قانونِ فطرت کے مطابق جو کیفیت آپ کی ہے وہ کسی اور کی ہو بھی نہیں سکتی کہ سچ کہا تھا کسی سیانے نے ”جس تَن لاگے ، سو تو جانے“ مگر سوال یہ کہ کیا حیدر کسی ماں کا پہلا لعل ہے جو چھین لیا گیا۔ حیدر کے اغوا کنندگان کا تو معلوم بھی نہیں کہ کون ہیں مگر اڈیالہ جیل سے اٹھائے جانے والے گیارہ افراد کے اغوا کنندگان کا کسے معلوم نہیں تھا۔ وڈیوز میں محفوظ ثبوتوں کے باوجود آپ کی سرکار کے کارندے، آپ کے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق اور عرفان قادر چیف جسٹس کے سامنے کھڑے ہو کر نہ صرف کہتے تھے کہ یہ افراد ”ایجنسیز“ کی تحویل میں نہیں۔ صد رحمت، چیف جسٹس افتخار چوہدری اور اُن کے دیگر ساتھی جج صاحبان پر جو ایک پیشی پر نہیں بلکہ درجنوں پیشیوں پر یہ کہتے تھے کہ اڈیالہ جیل سے اٹھائے افراد پیش کرو، وگرنہ کسی انتہائی بااختیار وردی والے کو بھی ہم طلب کر لیں گے۔ عدالت میں آپ کے کارندے اور عدالت کے باہر آپ کے وزراء جناب رحمن ملک اور زبان و کلام پر ملکہ رکھنے والے ہمارے دوست بابر اعوان کہتے تھے کہ یہ گیارہ افراد جونہی اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے”وزیرستان سے آئے طالبان اُنہیں اٹھا کر لے گئے“۔
تازہ ترین