امریکی سائنسدانوں نے ایسا ماحول دوست کنکریٹ ایجاد کیا ہے جو ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے اپنی دراڑوں کی خود ہی مرمت کرتا ہے اور زیادہ عرصے تک اپنی پائیداری بھی برقرار رکھتا ہے۔وورسیسٹر پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر نیما راہبر اور ان کے ساتھیوں نے یہ کنکریٹ انسانی خون میں پائے جانے والا ایک خامرہ (اینزائم) استعمال کرتے ہوئے ایجاد کیا ہے۔ تجربات کے دوران ’’سی اے‘‘ خامرے نے کنکریٹ سے بنی اینٹوں میں ایک ملی میٹر جسامت والی دراڑوں اور سوراخوں کو 24 گھنٹے میں مکمل طور پر بند کردیا ،جب کہ اینٹوں کی مضبوطی بھی برقرار رہی۔
اس سے پہلے کنکریٹ کو خودکار طور پر اپنی مرمت کرنے کے قابل بنانے کےلیے خاص طرح کے جرثوموں (بیکٹیریا) استعمال کیے جاچکے ہیں لیکن ایسے طریقوں میں کسی چھوٹی دراڑ کے پُر ہونے میں بھی ایک مہینہ لگ جاتا تھا جب کہ یہ طریقے بہت مہنگے بھی ثابت ہوئے۔سی اے خامرے والے کنکریٹ میں جب کوئی دراڑ پڑتی ہے تو یہ خامرہ ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کیمیائی عمل کرکے کیلشیم کاربونیٹ (چونے) کی قلمیں بناتا ہے جو کنکریٹ جیسی ہی مضبوط ہوتی ہیں۔
یہ قلمیں سوراخ یا دراڑ کو تیزی سے پُر کرتے ہوئے وہاں مضبوطی سے جم جاتی ہیں اور یوں کنکریٹ کی پائیداری بھی متاثر نہیں ہوتی۔ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ان کی وضع کردہ ٹیکنالوجی سے تعمیرات میں استعمال ہونے والے کنکریٹ کی پائیداری میں 20 سے 80 سال تک کا اضافہ کیا جاسکے گا،جب کہ کنکریٹ کی صنعت سے وسیع مقدار میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی (دوبارہ جذب کرتے ہوئے) مناسب حد تک کم کی جاسکے گی۔فی الحال یہ ٹیکنالوجی ابتدائی مراحل میں ہے۔