• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے ایک نوجوان ایڈورڈ سنوڈن نے تخت واشنگٹن کے ایوانوں میں تہلکہ برپا کر دیا ہے۔ اس نے امریکہ کی سب سے بڑی خفیہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کا بھانڈا بھرے بازار میں پھوڑتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ امریکہ دنیا کے کتنے ارب لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کرتا ہے۔ اس نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جمع کردہ اطلاعات دنیا بھر کے میڈیا کو فراہم کردیں۔ اس پر دنیا بھر میں تو شور مچ ہی رہا ہے لیکن سب سے زیادہ احتجاج امریکہ میں ہو رہا ہے اور اس کو ایک بہت بڑی سازش قرار دیا جا رہا ہے جس کا مقصد امریکہ کو ایک سوشلسٹ ڈکٹیٹرشپ بنانا ہے۔
پاکستان کے میڈیا میں یہ خبر آئی کہ اس کا شمار ان چند ملکوں میں ہے جن میں سے سب سے زیادہ اطلاعات جمع کی گئیں لیکن اس پر کوئی زیادہ واویلا شاید اس لئے نہیں مچا کہ لوگوں کو پہلے ہی پتہ ہے ان کی اپنی حکومت اور اس کے سرپرست ان کے بارے میں اطلاعات جمع کرتے رہتے ہیں اس لئے اس میں کوئی قیامت خیزی نہیں ہے۔ لیکن امریکیوں کے لئے یہ خبر صدمہ خیز دھماکے سے کم نہیں کہ ان کی اپنی ہی حکومت ان کی ذاتیات کے بارے میں اطلاعات جمع کرکے ان کی نجی زندگیوں میں دخل اندازی کر رہی ہے۔ امریکہ میں نجی زندگی کی تفصیلات ایک مقدس راز ہیں جن کے جاننے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔ اسی لئے کسی بھی طرح کی تلاشی کے لئے عدلیہ سے وارنٹ تلاشی جاری کرانا ضروری ہے۔لیکن اگر حکومت لوگوں کے میڈیا کے استعمال (فون، ایمیلیں وغیرہ) ، فضائی سیاروں یا ڈرونز کی مدد سے کسی کے بارے میں اطلاعات جمع کر لے یہ بلا وارنٹ غیر قانونی تلاشی ہوگی۔ نو گیارہ سے پیشتر حکومت کسی بھی شہری کی بلاوارنٹ تلاشی نہیں لے سکتی تھی۔ تلاشی کے وارنٹ حاصل کرنے کے لئے اسے پہلے عدلیہ کے نمائندے کے روبرو یہ ثابت کرنا ہوتا تھا کہ تلاشی لینے کا معقول جواز ہے۔ جب صدر بش نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو گلوبل (عالمی) جنگ قرار دے دیا تو خود امریکہ میں شخصی آزادی کے قوانین پر ضرب کاری لگی۔ وارنٹ برائے تلاشی کے قانون میں اس طرح کی ترمیمات کی گئیں کہ اب وارنٹ حاصل کرنا محض رسمی کارروائی ہو کر رہ گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ اب امریکی حکومت اپنے ہی شہریوں کے بارے میں بلا روک ٹوک اطلاعات جمع کر سکتی تھی چنانچہ اسی قانونی تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وال اسٹریٹ کا گھیراوٴ کرنے والے یا ماحولیاتی تحفظ کی تنظیموں کے بارے میں اطلاعات جمع کی گئیں اور بہت سے سرگرم اراکین کو سزائیں دی گئیں۔
اسی بنا پر کچھ ترقی پسند حلقوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی کو بہانہ بنا کر امریکی عوام کے بارے میں اس لئے اطلاعات جمع کی جارہی ہیں کہ ممکنہ عوامی انقلاب کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسّی کی دہائی کے بعد امیر اور غریب کا فرق بڑھتا گیا ہے اور اب حکمران طبقے کو خوف ہے کہ کہیں عوام ان کے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔ وہ ریاست وسکانسن میں مزدور یونینوں پر پابندی کو اسی عوام دشمنی کا حصہ سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل امریکی حکمران طبقہ اپنے عوام کو دبانے کے لئے پیشگی اطلاعات جمع کر رہا ہے۔
اس کے بالکل الٹ سب سے زیادہ شور قدامت پرست مچا رہے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ صدر اوباما ایک سیاہ فام سوشلسٹ ہے جو ہر شخص کے بارے میں اطلاعات جمع کرکے ملک میں کمیونزم نازل کرنا چاہتا ہے۔ مغربی میڈیا نے سچ یا جھوٹ اپنے عوام کو یقین دلا رکھا ہے کہ سوشلسٹ ملکوں میں کسی کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی اور حکومت فرد کے ہر پہلو پر ہر لمحہ نظر رکھتی ہے۔ اس لئے جب امریکیوں کو یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی ذاتیات کے بارے میں اطلاعات اکٹھی کی جا رہی ہیں تو لامحالہ وہ اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان پر کوئی اجتماعی نظام تھوپنے کی تیاری ہو رہی ہے۔
امریکہ میں انفرادیت پرستی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہی انفرادیت پرستی ریاستوں کے حقوق کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے اور فیڈرل گورنمنٹ کو ایک ولن سمجھا جاتا ہے۔ فیڈرل حکومت کی ممکنہ مداخلت کے خطرے کے پیش نظر بہت سی تنظیمیں ہمہ وقت کام کرتی ہیں۔ ان میں وہ مسلح گروہ بھی ہیں جو ہتھیار بند ہو کر فیڈرل حکومت سے آخری جنگ لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک تنظیم کے ایک ممبر میکوے نے ریاست اوکلاہاما میں فیڈرل حکومت کی ایک بڑی عمارت کو بموں سے اڑایا تھا جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ مع بچوں کے جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس طرح کے تمام گروپ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے امریکیوں کے بارے میں اطلاعات جمع کرنے کو ایک بڑی سازش سمجھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے خدشات کے درست ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
امریکہ میں خانہ جنگی بھی ریاستوں کے انفرادی حقوق کی بنا پر ہوئی تھی۔ جنوب کی ریاستیں یہ دعویٰ کرتی تھیں کہ ان کے قانون کے مطابق غلامی درست ہے۔ فیڈرلسٹ اور شمال کی ریاستیں غلامی کے خلاف تھیں جس کی وجہ سے کافی بڑی خونی جنگ لڑی گئی۔ جنوب کی ریاستیں جنگ تو ہار گئیں لیکن انہوں نے قدامت پرستانہ انفرادیت پسندی ترک نہیں کی۔ اسی بنا پر قدامت پرست اقوام متحدہ کو بھی ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ یا دوسرے عالمی ادارے دنیا کے ایک جیسے معیار مقرر کر کے ساری دنیا میں اجتماعی نظام (کمیونزم) ٹھونسنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی قدامت پرست برسراقتدار ہوتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اقوام متحدہ کو اپنے حصے کے واجبات دینے سے گریز کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اقوا م متحدہ کے تحت چلنے والے ادارے بند ہو جائیں۔ غرضیکہ صدر اوباما کے تحت کام کرنے والی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے امریکیوں کے بارے میں اطلاعات جمع کرنے پر امریکہ کے مختلف سیاسی حلقوں میں بھانت بھانت کے سازشی نظریات پیش کئے جا رہے ہیں۔ ان سب نظریوں کی بنیاد امریکیوں کی روایتی انفرادیت پسندی ہے۔ موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی دن رات تلاشی لی جا رہی ہے تو وہ کس طرح قانونی حدود میں رہ کر تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اسی کے الٹ پرانے نظام کے حامی اسے سوشلسٹوں کی گھناؤنی سازش قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد ذاتیات میں دخل اندازی اور انفرادی آزادی کا خاتمہ ہے۔ کچھ ناقدین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن نے امریکہ کو اپنی مرضی کا ملک بنا دیا ہے یعنی اب امریکہ میں بھی انفرادی آزادیوں پر ایسی قدغنیں لگنا شروع ہو گئی ہیں جیسی طالبان اور القاعدہ کے نظام میں ہوسکتی ہیں۔
تازہ ترین