• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسے معاشرے میں جہاں حق،دلیل،سچ اور ثبوت کی بات کرنا ایک اذیت ناک کام ہے، ایسے وقت میں ایک باشعور،مضبوط وفاقیت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پسند سیاستدان عثمان کاکڑکی رحلت سے نہ صرف پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کو نقصان پہنچا ہے بلکہ پاکستان میں سول و آئینی بالادستی کی سب سے توانا آواز کا خاتمہ ہو گیا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ 74سال سے ایک سیدھی لائن کی بجائے گول دائرے میں ہی گھوم رہی ہے،بلوغت کا نام ہی نہیں لیتی،دوقدم آگے چلتی ہے تو کوئی قوت اسے چھ قدم پیچھے دھکیل دیتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عثمان کاکڑ جیسے لوگ ہی ان آمرانہ قوتوں کے خلاف مسلسل آواز بلند کرتے ہیں اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے سیاست آہستہ آہستہ ارتقاء پذیر ہوتی ہے اور جمہوری تسلسل اور ادارہ سازی پروان چڑھتی ہے۔آج صرف عثمان کاکڑ کی رحلت نہیں ہوئی بلکہ پاکستان میں جمہوری و سیاسی ارتقا کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔وہ بلوچستان کے علاقے مسلم باغ قلعہ سیف اللہ میں 1961میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی اور بعد میں ایل ایل بی اور ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔

وہ زمانہ طالب علمی سے ہی طلبا سیاست میں متحرک ہوگئے تھے اور انہوںنے اپنا سیاسی سفر پشتونخوا ملی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے شروع کیا تھا۔وہ تنظیم کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ 1987میں پشاور میں ہونے والی ایک بڑی کانفرنس میں تنظیم کے سربراہ منتخب ہوئے ۔تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے اپنے باقاعدہ سیاسی سفر کا آغاز پشتون خوا ملی عوامی پارٹی سے کیا اور اپنی زندگی کے آخری دن تک وہ اسی جماعت سے وابستہ رہے۔چھ سالہ سینیٹر شپ کے دور میں ان کے جوہر کھل کر سامنے آئے اور انہوں نے محکوم و مظلوم طبقات کے لئے آواز بلند کرنا شروع کی۔وہ سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے رکن تھے جس کے سربراہ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر تھے ،کمیٹی کے اجلاس میں پنڈی بھٹیاں کے مزدوروں کی جبری برخاستگی کے خلاف انہوں نے بھرپور آواز بلند کی۔انہوں نے پختون قومی تشخص کے لئے بھی انتھک محنت کی ۔وہ کہتے تھے کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جس میں مختلف قومیں اپنی زبان،ثقافت،تاریخ اور سرزمین کے ساتھ صدیوں سے آباد چلی آرہی ہیں۔وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں وفاق کی سیاست کو ارتقاء پزیر ہونا ہے تو آمرانہ قوتوں کا ڈٹ کر اور بے باک طریقے سے مقابلہ کیا جائے۔ان کا کہنا تھاکہ جمہوریت و دستوری تسلسل میں رخنہ اندازی پاکستانی وفاقیت کے تسلسل کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ وفاقی نظام کے لئے ایک لازمی امر یہ ہے کہ آبادی کے بڑے خطے کو مجموعی ملک کے ساتھ اس طرح پیوست کیا جائے کہ محکوم قوموں کو احساس شناخت ملے۔وہ سمجھتے تھے کہ تاریخ میں بہت سارے وفاقی ممالک کے ناکام ہونے کی بڑی وجہ کمزور جمہوریت اور وفاق میں شامل مختلف اکائیوں کے درمیان شدید عدم توازن ہے اور یہ کہ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے باوجود ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔وہ ساری زندگی آمرانہ قوتوں کابے باکی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ایسے وقت میں جب بونے پاکستانی سیاست کی علامت بن گئے تو عثمان کاکڑ بہادری و استقامت کا استعارہ بنے رہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ جب اسلام آباد پہنچا اور وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیمپ لگائے گئے تو عثمان کاکڑسینیٹر ہونے کے باوجود پورا دن اپنی جماعت کے کیمپ میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ گزارتے اور بالخصوص کھانے کے وقت وہ دوسری جماعتوں کے کارکنان کو پکڑ پکڑ کر اپنے کیمپ میں لاتے تاکہ وہ بھی کھانا کھالیں ۔دورانِ دھرنا اپنے ہاتھوں سے کارکنوں میں کھانا تقسیم کرتے ہوئے میں نے انہیں کئی بار دیکھا۔

انہوں نے سینیٹ آف پاکستان میں اپنے آخری خطاب میں جس جوانمردی کے ساتھ ان طاقتوں کو للکارا جو ملک میں جمہوریت و سول بالادستی کی راہ میں رکاوٹ ہیں،یہ بے باکی انہی کا خاصہ تھی۔انہوںنے اپنے آخری خطاب میں واضح طور پر ان قوتوں کا نام لیا تھا جو ان پر مختلف حیلے بہانوں سے دبائو ڈال رہی تھیں۔عثمان کاکڑ کا اپنے آخری خطا ب میں کہنا تھا کہ’’ہم پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ ہم جمہوریت اور اپنے نظریات سے دستبردار ہوجائیں ،پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ قوموں کے حقوق کی بات کرنا چھوڑ دیں‘‘۔عثمان کاکڑ گوکہ قوم پرست رہنما تھے لیکن وہ اپنی پارٹی اور قوم کے علاوہ دوسری اقوام میں بھی اسی طرح مقبول تھے جیسے اپنی پارٹی میں تھے اوراسی لئے نہ صرف کوئٹہ کے اسپتال کے سامنے مختلف جماعتوںکے کارکنان کی کثیر تعداد موجود تھی بلکہ کراچی کے نجی ہسپتال کے سامنے بھی عوام کثیر تعداد میں موجود رہے اور جب ان کی موت کا اعلان کیا گیا تو کارکنان زارو قطار رونے لگے۔

پاکستان میں جب بھی جمہوریت کو استحکام ملے گا تو ایک غیر جانبدار تاریخ دان عثمان کاکڑ کا کردار سنہری حروف میں لکھے گا۔عثمان کاکڑ پاکستان میں سیاسی کارکنوں کے لئے ایک ایسی راہ کا تعین کرگئے ہیں جس پر چل کر پاکستان کو اکیسویں صدی میں ایک جمہوری اور وفاقی ملک بنایا جا سکتا ہے۔آنے والے وقت میں ان کی سینیٹ میں کی گئی تقریریں اور بے باک گفتگو پاکستانی نصاب کا حصہ بنے گی اور یوں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے!

اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

ورنہ سقراط مر گیا ہوتا

تازہ ترین