• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی حکومت کی خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے شاہی فرمان کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس سے گاڑی بلانے والی کمپنی ’’ایپس‘‘ کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی لیکن کمپنی کے مالک کے مطابق یہ فیصلہ ان کے لئے خوش آئند ہے۔ حکومت کے حالیہ فیصلہ سے لاکھوں خواتین گاڑیاں چلانے کے قابل ہوجائیں گی اور حکومت اربوں ڈالرز کی بچت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ملک میں آنے والی اس تبدیلی کا سہرا سعودی عرب کے 36سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سر ہے جو روایتی طور پر ایک قدامت پسند ملک میں خود کو جدت پسند کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ، انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ معاشرے کا چلن تبدیل ہورہا ہے اوراب عوام ’’رعایا‘‘ نہیں رہے جبکہ اسلامی معاشرے کے مرد بھی بڑی تعداد میں اس پابندی کے خاتمے کے حق میں ہیں۔سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں مرد و عورت کا مخلوط ماحول میں اٹھنا بیٹھنا معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں کئی خواتین ’’نامحرم‘‘ مرد ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے سے کتراتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ ماہرین کو خدشہ تھا کہ گاڑیاں بلانے والی کمپنی اس فیصلے سے متاثر ہوگی کہ اس کی بیشتر صارفین خواتین ہیں لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لاکھ خواتین کو نوکری فراہم کرسکے گی۔

ایک دوسری خبر کے مطابق سعودی عرب میں مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ہونے کے باوجود ملک میں غیرشادی شدہ عورتوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے۔ لگ بھگ ایک کروڑ خواتین میں سے صرف 29لاکھ خواتین شادی شدہ ہیں جبکہ تیس (30)سال تک کی غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد 20لاکھ کے لگ بھگ ہے اور جو 29لاکھ خواتین شادی شدہ ہیں ان کی اکثریت مکہ مکرمہ اور ریاض میں ہے۔ ایک عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے اپنے شہریوں کی غیرسعودی خواتین سے شادی پر پابندی کا بل منظور کرلیا ہے جس کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ ریال جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ سعودی مجلس شوریٰ نے یہ اقدام ان غیرسعودی خواتین کی جانب سے شہریت دیے جانے کے مطالبات کے بعد اٹھایا ہے جن کے شوہر خود تو سعودی عرب میں مقیم ہیں لیکن ان کی منکوحہ عورتیں دوسرے ممالک میں ہیں، ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ سعودی عرب ان کی اولاد کو بھی سعودی شہریت دے، نئے مسودے میں یہ لچک رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی سعودی مرد یاعورت خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک میں شادی کرسکتی ہے لیکن کونسل کے باہر شادی کرنے والے سعودی (مردو عورت) کو ایک لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ سعودی مجلس شوریٰ نے سعودی نوجوانوں کے بیرونی خواتین کے ساتھ شادی کرنے کے خلاف جو قانون وضع کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مملکت میں کئی سعودی نوجوان لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں، اس کے علاوہ غیرملکی خواتین و لڑکیوں کے ساتھ شادیوں کے نتیجے میں کئی سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں ان مسائل سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ان شادیوں پر پابندی لگائی جائے۔ سعودی عرب میں سیاسی آزادی اور عورتوں کے حقوق کافی حد تک محدود تھے موجودہ حکومت تعلیم اور معاشی میدان میں اصلاحات کرنے پر کافی زور دے رہی ہے، سعودی حکمران مرحوم شاہ عبداللہ نے 2010ء میں فتویٰ جاری کرنے کے لئے حکومت کے مقرر کردہ علمائے دین کو ہی اختیار دینے کا جو اعلان کیا تھا اس کے پس پشت دراصل ان قدامت پسندوں کو محدود کرنا تھا جو ملک میں سماجی و سیاسی اصلاحات میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، شاہ عبداللہ تعلیمی و سیاسی میدان میں جو انقلابی تبدیلیاں لانا چاہ رہے تھے اس سے اور کچھ فوائد حاصل ہوں نہ ہوں تیل، گیس اور پیٹرول کے وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا اور جدید ٹیکنالوجی اپنانے سے بے روزگاروں کے لئے روزگار کے وسائل دستیاب ہوں گے، شاہ عبداللہ نے 2011ء میں مملکت کے مفتی اعظم کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ صرف 20فیصد علمائے دین پر مشتمل کمیٹی کے ممبران کو ہی فتویٰ دینے کا مجاز سمجھا جائے۔

جہاں ایک طرف شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے خواتین کو حق رائے دہی کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا وہاں خواتین کو مرد حضرات کی طرح مجلس شوریٰ میں شامل ہونے کا بھی حق حاصل ہوگا ۔ایک ایسے ملک میں جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے اور جہاں خواتین کار ڈرائیو نہیں کرسکتی تھیں والدین کی اجازت کے بغیر ملازمت، سفر یا شادی نہیں کرسکتی تھیں وہاں انہیں ووٹ کا حق دیا جانا بظاہر سیاست یا مصلحت نظر آتا ہے شاید مرحوم شاہ عبداللہ نے اس غیرمتوقع اقدام کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والی بیداری کا رخ ایک دوسری طرف موڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس فیصلے سے نہ صرف خواتین کے لئے مزید تبدیلیوں کی راہ کھلے گی بلکہ شاہی خاندان اور علمائے کرام کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی مختلف رُخ اختیار کرے گی۔ شاہ سلمان کے اعلانات کے فوری بعد علمائے کرام اور خواتین کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے خواتین کو مردوں کے مساوی ووٹ دینے کا حق ایک ایسا قدم ہے جس کا خواتین نے خیرمقدم کیا ہے ۔ ان کے خیال میں عورتوں کے حق میں یہ تبدیلیاں ترقی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔

میرے حساب سے عرب دنیا بدل رہی ہے، سارا نقشہ تبدیل ہورہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تبدیلی سے متعلق عرب سرزمین کے اندر سیاسی، تعلیمی اور سماجی فکر میں بھی حقیقی تبدیلی آئے اب عرب باشندے محض ’’رعایا‘‘ اور ہاتھ اٹھانے والے ’’پیروکار‘‘ نہیں رہے، دنیائے عرب کے ہر دارالحکومت میں ایک ’’تحریر چوک‘‘ وجود میں آرہا ہے اس لئے اب ضروری ہے کہ عرب شہریوں کے ساتھ بین الاقوامی معیار ہی کے مطابق سلوک کیا جائے ۔

تازہ ترین