خیبر پختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال 2021-22ء کیلئے11 کھرب 18ارب 30 کروڑ کا بجٹ پیش کر دیا تاہم قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ہونیوالی ہلڑ بازی اور بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کے شدید ردعمل اور اپوزیشن پر تشدد کے واقعات کے برعکس خیبر پختونخوا اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی طرف سے بہت ہی تحمل و بربادری کا مظاہرہ کیا گیا خیبر پختونخوا اسمبلی میں بجٹ تقریرکے موقع پر پرسکون انداز میں ساری کارروائی مکمل کرکے پورے ملک کیلئے بہترین مثال قائم کردی گئی ہے بجٹ اجلاس شروع ہونیوالے سے قبل وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے اہم کردار ادا کیا۔
وزیر اعلی محمود خان نے اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں جس کی وجہ سے اپوزیشن پرامن انداز میں اپنی نشستوں پر بیٹھ کر کارروائی کا حصہ بنی رہی صوبائی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مجموعی طور پر 37فیصد اضافہ کیا گیا جس میں 10فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس، خصوصی الاؤنس نہ لینے والے ملازمین کیلئے 20فیصد فنکشنل یا سیکٹورل الاؤنس، سرکاری رہائش سے مستفید نہ ہونیوالے ملازمین کے ہاؤس رینٹ میں 7فیصد اضافہ کر دیا گیا ۔
مزدور کی کم سے کم اجرت 21ہزار روپے مقررکی گئی ہے، حکومت نے بڑھتے ہوئے پنشن کے اخراجات کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے پنشن رولز میں بھی تبدیلی کی ہے، اب پنشن کے مستحقین میں صرف فوت ہونیوالے ملازم کی بیوہ، والدین اور بچے شامل ہونگے۔بیواؤں کی پنشن میں 75 فیصدکی بجائے 100 فیصد اضافہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، رولز کی تبدیلی سے حکومت کو سالانہ ایک ارب کی بچت ہوگی، جلد ریٹائرمنٹ لینے والے ملازمین کیلئے 25سال کی ملازمت یا 55سال کی عمر کا تعین کیا گیاہے جس سے 12ارب روپے کی سالانہ بچت ہوگی۔
جگر کی پیوند کاری کو صحت کارڈ پلس میں شامل کر لیا گیا ہے فی مریض 50لاکھ خرچ ہونگے،سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 371ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جس میں قبائلی اضلاع کیلئے پہلی بار 100ارب کا ترقیاتی بجٹ شامل ہے۔صوبائی حکومت نے پہلی بار ڈویلپمنٹ پلس بجٹ کی اصطلاح متعارف کروائی ہے جس میں صحت کارڈ پلس،اسکولوں کو فرنیچر کی فراہمی اور ادویات کے بجٹ میں اضافہ کرکے اسے 500ارب روپے تک لے جایا گیا ہے۔ گندم پر 10ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی، غریب طلبہ کو فوڈ باسکٹ کی فراہمی کیلئے 10ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ترقی پذیر اضلاع میں تفریق ختم کرنے کیلئے 61ارب لاگت کا منصوبہ متعارف کرایا گیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت آئندہ مالی سال 10.4 ارب خرچ کئے جائینگے،زراعت کیلئے سوا 13ارب کا ریکارڈ بجٹ رکھا گیا ہے، بجٹ میں طورخم سفاری ٹرین کی از سر نوبحالی بھی شامل ہے صوبائی حکومت نے چھوٹے، متوسط درجے کے صنعتکاروں، خواتین، اقلیتوں، نوجوانوں اور کورونا سے متاثرہ تاجروں کی معاشی بحالی کیلئے 10ارپ روپے مختص کئے ہیں یہ رقم بینک آف خیبر کے ذریعے فراہم کی جائے گی، آئندہ مالی سال صوبے کے 20ہزار خطیبوں کو ماہانہ وظیفہ دیا جائیگا جس کیلئے 2.6 ارب مختص کئے گئے ہیں، چھوٹے کاشتکاروں کو ریلیف دینے کیلئے اراضی ٹیکس صفر کر دیا گیا ہےگاڑیوں کی رجسٹریشن فیس کم کرکے صرف ایک روپیہ کر دی گئی ہے جبکہ دوبارہ رجسٹریشن مفت ہوگی،پروفیشنل ٹیکس صفر کر دیا گیا ہے، محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم میں آئندہ مالی سال میں 20ہزار اساتذہ بھرتی ہونگے جبکہ 3ہزارا سکول لیڈرز کی تقرری ہوگی، 2100اسکولوں کی تعمیر، بحالی اور اپ گریڈیشن ہوگی جس سے ایک لاکھ 20ہزار بچوں کے داخلے کی گنجائش ہوگی ضم اضلاع میں 4300 اساتذہ بھرتی ہونگے، صوبائی دارالحکومت میں آمدورفت اور ٹریفک کے نظام میں بہتری کیلئے ناردرن بائی پاس روڈ پر 345کنال پر مشتمل نئے جنرل بس اسٹینڈ کا قیام، پشاور ناردرن بائی پاس سڑک کی تکمیل،شمالی رنگ روڈ کے پجگی سے ورسک روڈ تک نامکمل حصے کو مکمل کرنا اور اسے ناصر باغ تک توسیع دینا شامل ہے بلدیاتی انتخابات کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ریسکیو 1122کو صوبے کی ہر تحصیل تک توسیع دی جائے گی جس کیلئے 2.8ارب روپے رکھے گئے ہیں، ثقافت اور سیاحت کے ترقیاتی بجٹ کو 2ارب سے بڑھا کر 12ارب کر دیا گیا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے بجٹ میں 137فیصد کا ضافہ کیا گیا ہے صوبے میں 48.2ارب روپے کی لاگت سے 3ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکوں کی تعمیر ہوگی زراعت کے شعبے میں 13.23ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کئے جائینگے ٗ خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے ایک ارب روپے خرچ ہونگے ٗ بزرگ شہریوں کیلئے 10کروڑ روپے کی گرانٹ بھی بجٹ کا حصہ ہے۔و زیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے صوبائی بجٹ برائے مالی سال 2021-22 کو ایک متوازن، عوام دوست اور ایک تاریخی بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے جس میں تمام شعبوں پر بھر پور توجہ دی گئی ہے اور بجٹ پر عمل درآمد سے صوبے میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا اور عوام کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئے گی یہ ایک ٹیکس فری بجٹ ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔