• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور قبضے کب ختم ہوں گے؟

پی پی پی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے پر تعصب کے الزامات عائد کررہے ہیں بعض افراد کے مطابق یہ تصادم دیگر قوموں کو بھی لپیٹ میں لے سکتا ہے سندھ کا شہر کراچی کثیراللسانی صوبہ ہے ایک طویل عرصے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں امن قائم کیا ہے تاہم زمینوں کے قبضے کو لیکر سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہوگئی ہیں گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں زمینوں پر قبضے اور غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ میں سرکاری زمینوں پر بادشاہوں کی طرح قبضے کئے جارہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کراچی میں غیرقانونی تعمیرات اور قبضے ختم کرنے کا حکم دیا غیرقانونی تعمیرات ختم کرنے پر بعض علاقوں میں مزاحمت بھی ہوئی متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عامرخان، سابق میئرکراچی وسیم اختر اور دیگر نے ایم کیو ایم کے عارضی مرکز پرپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ایک دو سال سے کراچی میں اعلیٰ عدالتوں کے حکم پر تجاوزات گرائی جارہی ہیں کراچی میں تجاوزات گرانے کے ہم بھی حامی ہیں ایوب خان کے دور سے یہاں منظم انداز میں تجاوزات ہورہی ہیں گزشتہ دو تین دن سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اندھا دھند تجاوزات گرائی جارہی ہیںہمیں تجاوزات گرانے کے طریقہ کار اور علاقوں کے چنائو پر تحفظات ہیں کراچی میں مستقل بسنے والوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

تجاوزات گرانے میں ہم چیف جسٹس کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں مگر اس میں انصاف کیا جائےاس شہر کے اداروں میں ستر سے نوے فیصد لوگوں کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے، ہونا تو یہ چاہیئے کہ متعلقہ اداروں میں موجود جن افسران نے تجاوزات کی اجازت دی انکے خلاف کارروائی کی جائےپاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ان تعصبات میں اضافہ ہوجاتا ہے چیف جسٹس صاحب کے فیصلوں پر عملدرآمد میں انصاف و قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں خدا کے لئے ہماری سیاسی اور انسانی حقوق پر بھی تجاوزات ہورہی ہیں ان پر بھی فیصلہ کیجئے ہماری پٹیشنز سپریم کورٹ میں موجود ہیں ہماری مردم شماری میں ڈنڈی نہیں ڈنڈا مارا گیا ہے چیف جسٹس صاحب یہ شہر آپ سے فریاد کر رہا ہےسندھ سیکر یٹریٹ سندھی سیکر یٹریٹ بن چکا ہے کیا سندھ کے اداروں میں تمام لسانی اکائیوں کی نمائندگی ہےکیا سندھ پبلک سروس کمیشن میں تمام لسانی اکائیوں کی نمائندگی ہے؟چیف جسٹس صاحب ہم آپکے پاس آئین کے آرٹیکل 140 اے پر گئے۔چیف جسٹس صاحب ہمیں یقین ہے کہ آپکے فیصلے اس شہر کے حق میں ہونگے۔ مارٹن کوارٹر اور دیگر آبادیوں کو خالی نہیں کرانے دیا جائے گااس معاملے پر وفاق سے بات کریں گےقبضوں پر ایک عدالتی کمیشن بننا چاہیے۔

عامرخان نے کہاکہ سندھ حکومت کو متاثرین کو پہلے متبادل جگہیں دینی چاہئیں۔کے ایم سی الوقت سندھ حکومت کے ماتحت ہےسندھ حکومت کا سارا زور صرف مہاجر علاقوں پر ہےیہ شاہراہ فیصل پر موجود تجاوزات کو کیوں نہیں گرایا جارہاان لوگوں پر جرمانہ لگا کر انکو کیوں ریگولرائز نہیں کیا جارہاکیا بنی گالہ کو ریگولرائز نہیں کیا گیا؟وسیم اختر نے کہاکہ پانی، بجلی اور دیگر مسائل بھی ہیں اس شہر میں میں چیف جسٹس صاحب آپ سے اپیل ہے کہ ان معاملات کو بھی آپ دیکھیں صرف غریب لوگوں کے مکانات گرائے جارہے ہیں اس کراچی کی زمینوں پر اربوں روپے کی تجاوزات ہورہی ہیں۔

کراچی کے لوگ تنگ آگئے ہیں ایسا نہ ہوکہ اب ہم پارلیمنٹ سے نکل کر عوام کے ساتھ سڑکوں پرصوبائی وزیر بلدیات و اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے ایم کیو ایم پاکستان کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم ہر معاملے میں لسانیت کو لیکر آتی ہے۔تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کروا کر روشنیوں کے شہرکراچی کا بیڑہ غرق کرنے والے تو آپ لوگ ہیں۔اب روز آکر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنی پریس کانفرنس میں سندھ حکومت کو تو زمینوں پر قبضے کا ذمہ دار قرار دے کر آڑے ہاتھوں لیا تاہم انہوں نے دیگر لسانی اکائیوں پر بھی بین السطور انگلیاں اٹھائی ان کی جانب سے تادم تحریر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔حیرت انگیز طور پر پی پی پی پی ایس 114 کے جنرل سیکریٹری مسعود الرحمان عباسی نے بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف تقریر داغ دی جس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے پی پی پی کراچی ڈویژن کے صدر سعیدغنی نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے تین روز میںجواب طلب کرلیا کراچی کی واقع ایک بڑے تعمیرات پروجیکٹ پرکچھ دن قبل ہنگامہ آرائی کی وضاحت کرتے ہوئے سندھ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سیدجلال محمودشاہ ، قادرمگسی اوردیگر نے الزام عائد کیا کہ یہ ہنگامہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے کرایا ہے۔

کراچی میں تجاوزات اور قبضے کا معاملہ بہت پرانا ہے،پی پی پی کے بعض رہنماؤں پرگزشتہ دور میں حب ریورروڈ، ہاکس بے اور ملحقہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر قبضہ کا الزام عائد کیا جارہا ہے تو ایم کیو ایم پر عروج کے دور میں چائناکٹنگ ، ناظم آباد کے پوش ایریاز میں پارکس، ایس ٹی پلاٹوں پر قبضے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ پختون آبادی، ہزارہ وال اور پنجابی، سرائیکی آبادی پر کچی بستیوں میں آبادگاری کرنے کاالزام لگایا جاتا ہے ۔ 

کراچی سے متعلق ڈیٹا رکھنے والے ماہرین کے مطابق کراچی کے آدھے رقبہ پرقبضہ ہے جس میں گوٹھ بھی شامل ہے بعض گوٹھ انتہائی پوش علاقوں میں بنائے گئے ہیں ۔ جبکہ غیرقانونی تعمیرات کا سلسلہ گزشتہ 20سال پرانا ہے کراچی میں  غیرقانونی ونجی عمارت تعمیر کردی گئی اب دیکھنا یہ ہے کہ غیرقانونی قبضے اور تعمیرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کیونکہ اس معاملے میں سیاسی جماعتیں بھی کود چکی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین