• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اپوزیشن کو ساتھ ملائے بغیر انتخابی اصلاحات ناممکن

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے آغاز پر شروع ہونے والی جنگ و جدل کے تین روز بعد بھائی لوگوں کی مداخلت سے سے ہونے والی جنگ بندی پر یہ تاثر قائم ہوا کہ جیسے قومی اسمبلی میں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں ،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے اڑائی گھنٹے کے خطاب کے دوران دعوی کیا کہ اپوزیشن منظوربجٹ نہیں ہونے دے گی اس دعوی کی کامیابی کا کس حد تک امکان ہے 30 جون تک قومی اسمبلی بجٹ اجلاس کے بعد شواہد واضح ہو جائیں گے ، حکومت کو اکثریت حاصل ہے اور وہ اپنے تین بجٹوں کی طرح اس بجٹ کو بھی پاس کرانے میں کامیاب ہوجائے گی،بجٹ کے بعد حالیہ ہفتے میں مہنگائی میں 0.28 اضافہ ہوا ہے جبکہ غربت کی شرح 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4فیصد ہو گئی ہے۔ 

اپوزیشن لیڈر نے اپنے خطاب میں کہا کہ سب کو اکٹھا ہونا ہوگا ملک کی سلامتی و استحکام کے لیے وہ کسی کے گھٹنے بھی چھونے کو تیار ہے الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی تیرہ شقوں کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے اور معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانے پر زور دیا ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر شریف نے الیکشن کمیشن کے اعتراضات کے بعد معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی ہے جس پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف زرداری نے تائید کی ہے تاہم وفاقی حکومت کے ترجمان فواد چوہدری نے اسے پارلیمنٹ کو ڈی گریڈ کرنے کی سازش قرار دیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ پارلیمان کو نظر انداز کرکے آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز مضحکہ خیز ہے۔

حکمران جماعت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق میں اسمبلی سے منظور قوانین واپس نہیں ہوں گے آگے چل کے مشیر قانونی مشیر بابر اعوان اور وزیر مملکت فرخ حبیب نے قوانین قواعد و ضوابط کے ذریعے منظور کروانا اچھا ہوتا الیکشن کمیشن حکومت سے بات کرتا شہباز شریف ایسے راستے کیوں اختیار کرتے ہیں جہاں گھٹنے پکڑنے پڑیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشینین تیاری کے آخری مراحل میں ہیں، آر اوز کے انتخابات کا زمانہ گیا دھاندلی کے شور کا خاتمہ چاہتے ہیں اس لیے الیکشن قوانین پر زور دے رہے ہیں۔ 

اپوزیشن پارلیمنٹ میں آکر بات کرے، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو مشاورت کے لیے بلانے کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی انتخابی اصلاحات آئین سے متصادم ہیں ایجنڈا یکطرفہ اقدامات سے مسلط کر کے انتخابات کو متنازع بنایا جارہا ہے،شہباز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی ایک خط لکھا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو میڈیا پر مساوی کوریج سے محروم کیا جا رہا ہے ،میڈیا کو بغیر کسی پابندی کے پارلیمنٹ تک رسائی فراہم کی جائے اور اس میں اسپیکر اپنا آئینی کردار ادا کریں۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کہ پارلیمنٹ میں سیاستدان اپنا فیصلہ خود کرنے سے گھبراتے اور کتراتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بھائی لوگ ان کے معاملات بہتر بنا دیں،حالانکہ سیاسی قوتوں کو طویل تجربات کے بعد یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاسی مخالفت میں اس حد تک نہ جائیں کہ ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہوئے شرمندگی ہو۔ 

اپوزیشن کی طرف سے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بات ہی اعتماد ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے ۔ دعویٰ ہے کہ موجودہ اسپیکر اسد قیصر حکمران جماعت کے لوگوں کی بیڈ بکس کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کے خلاف مستقبل میں آنے والی کوئی بھی تحریک عدم اعتماد ان خودکش بمباروں کی وجہ سے کامیاب ہوجائے گی جو پی ٹی آئی کا حصہ ہونے کے باوجود اپوزیشن لیڈر کی تقدیر کے دوران بجٹ کتابوں کو استعمال کر رہے تھے ۔بعض حلقوں کی رائے ہے کہ مہنگائی میں اضافے اور روزگاری میں اضافے کے باوجود لوگ سڑکوں پر صرف اس لیے نہیں نکلے کہ بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر اپنا غصہ نکال لیتے ہیں حکومت کی طرف سے جب عوام میں رد عمل نہیں دیا جاتا ۔

سوشل میڈیا کے کے موثر ہونے سے صحافتی بردباری ختم ہوکر رہ گئی ہے جھگڑے چھڑانے کی بجائے " تصویر کشی" کو ترجیح دی جاتی ہے قومی رویہ کی بے حسی بھی ٹیلی فون کیمرے میں پھنس کر رہ گی ہے۔سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی،پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر شورشرابا جاری رہے گا سیاسی قوتیں اپنی اپنی شناخت کے لیے شورشرابا کرتی رہیں گی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی صفوں میں ابھی تک نواز شریف اور آصف علی زرداری کا متبادل تلاش کرنے میں مصروف ہیں بلوچستان میں دونوں جماعتیں موجود نہیں ہیں دونوں جماعتیں انتہائی سکڑ کر رہ گئی ہیں۔ 

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہبازا سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی سے ملاقاتیں کرکے کے ذاتی تعلقات بحال کرنے میں مصروف ہیں جبکہ اسلام آباد میں شہبازشریف نے ہاتھ میں ڈنڈا پکڑا ہوا ہےاور دھیرے دھیرے وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا رہےہیں۔دوسری طرف حکومت بھی اپوزیشن لیڈر کو نیب کے بعد ایف آئی اے میں طلب کروا کے ان کا سیاسی قد بڑھا رہی ہے اور انہیں نواز شریف کے کے مقابلے پر لانے کی کی سازش کی جارہی ہے۔

بعض حلقوں کا تو یہ کہنا ہے کہ نواز شریف کی زندگی میں شہباز شریف اپنے بھائی سے سیاسی دغا نہیں کر سکتا۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ سے مایوسی کا عنصر بڑھتا جارہا ہے جس کے اثرات افسر شاہی میں بھی نظر آرہے ہیں اور عوام کے مسائل جوں کے توں کھڑے ہیں حکومت اور اپوزیشن حل کرنے کے لئے تیار نہیں حکومت روزانہ اپوزیشن کے خلاف چور چور ڈاکو ڈاکو کو کے ریٹ لگائے بیٹھی ہے سرکاری جماعت پارلیمنٹ میں وہ تاثر دینے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی جس سے پتہ چلے کہ حکومت کے ارکان عوامی مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔ 

وزیراعظم کی پارلیمنٹ سے مستقل غیر حاضری بھی بی بی پاک دامن ٹکٹ کے غیر موثر ہونے کی ایک وجہ بنتی جارہی ہے بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان پارلیمنٹ میں مستقل آنا شروع کردیں تو بہت سے مسائل پارلیمنٹ میں ہی حل ہو جائیں گے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شریف کی ایف آئی اے میں طلبی اب اپوزیشن اور حکومت کے مابین پارلیمنٹ میں کشیدگی میں اضافے کا موجب بنے گی، حکومت کو اپوزیشن لیڈر کی طرف سے انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں طلب کی گئی آل پارٹیز کانفرنس کی مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنی چاہیے اور وہ جو کام پارلیمنٹ میں نہیں کر سکے اسے پارلیمنٹ سے باہر کر لینے میں کوئی حرج نہیں، اپوزیشن کو موقع ددیا جائے اور اگر ضروری ہو تو پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر اس پر مزید بات کی جاسکتی ہے، صرف پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کا ہی انتخابی اصلاحات پر حق نہیں، پارلیمنٹ سے باہر موجود سیاست دان اور سیاسی جماعتیں کا بھی حق ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین