کراچی( تجزیہ ،مظہر عباس) سابق صدر آصف علی زرداری اس وقت "مشن پنجاب" پر ہیں۔وہ آئندہ کے سیاسی سیٹ اپ میں پنجاب میں کچھ جگہ اور سیاسی اتحادی چاہتے ہیں جبکہ پنجاب کی سیاست پوری طرح دو بیانیوں میں بٹی ہوئی ہے، ایک حکمران پاکستان تحریک انصاف کا اور دوسرا بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کا. پیپلز پارٹی پنجاب میں کچھ جگہ کیلئے جدوجہد کرسکتی ہے. پیپلز پارٹی 1977 کے بعد پنجاب میں کبھی اکیلے حکومت نہیں بناسکی. حتیٰ کہ 1986.88 میں بھی جب بینظیر بھٹوایک طوفان کی طرح پنجاب پر چھا گئیں
انہیں اس وقت کی ایسٹیبلشمنٹ کے برین چائلڈ آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) کے ذریعے روک لیا گیا. لیکن 2008 تک پنجاب میں پیپلز پارٹی کے خاصے ووٹ رہے. جن میں کمی ہوتی گئی اور وہ شرمناک حد تک پہنچ گئے. گزشتہ بارہ سال میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن کے لیے حقیقی چیلنجر کے طور پر ابھر کر سامنے آئی. گزشتہ چند سال میں پیپلز پارٹی کے کئی سابق ایم این اے اور ایم پی اے بھی تحریک انصاف میں شامل ہوگئے.
مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک کم وبیش برقرار رہا لیکن پیپلز پارٹی پھر نہیں سنبھل سکی. موجودہ صورتحال یہ ہے کہ صوبے میں آئندہ سیاسی لڑائی حالیہ ضمنی انتخابات کی طرح لڑی جائے گی. عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات بہت اہم ہوں گے.
اس صورت حال میں زرداری صاحب کیا دیکھ رہے ہوں گے؟ ترین فیکٹر، مسلم لیگ میں شہباز شریف کا بڑھتا ہوا کردار اور ان کے درمیان کہیں سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں مسلم لیگ ق سے تعلقات. پرویز الہی نے پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات اور بجٹ سیشن جس طرح نمٹائے، اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہوا ہے.
اگرچہ زرداری کے قریبی ساتھیوں کو یقین ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں بہتر کارکردگی دکھائے گی، لیکن صورتحال ایسی لگتی نہیں بشرطیکہ اس کی پنجاب ٹیم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، مخدوم احمد محمود وغیرہ کچھ الیکٹیبلز پارٹی میں نہ لے آئیں. زرداری کچھ سابق پی پی پی لیڈروں مثلاً منظور وٹو اور قاسم ضیاء کو بھی واپس لانے کی کوشش کررہے ہیں.
تنظیمی سطح پر پیپلز پارٹی گزشتہ کچھ سالوں میں تقریباً ختم یا بہت کمزور ہوگئی ہے. زرداری کو یہ بھی پتہ ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے بعد پنجاب میں نئی ابھرتی طاقت تحریک لبیک پاکستان ٹی ایل پی ہے. آئندہ انتخابات میں اس کا کیا کردار ہوگا، یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے.
اس کی طاقت کم بھی ہوتی ہے تو اس کا فائدہ تحریک انصاف یا مسلم لیگ ہی کو ہوگا، پیپلز پارٹی کو تو یقیناً نہیں. اگرچہ مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں اتحادی ہیں، چودھریوں اور عمران خان کے باہمی تعلقات ہم خیالی سے زیادہ مجبوری کے ہیں.
ان کے درمیان ماضی کی تلخیاں بھی ہیں. عمران خان ان کا نام زرداری اور نواز شریف کے ساتھ لیتے رہے ہیں. عمران خان پرویز مشرف پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے 2002 کے الیکشن کے بعد ان پر چودھریوں کو ترجیح دی. چودھری مونس الٰہی کے بارے میں ان کے ریمارکس بھی نہیں بھولے جو انہوں نے انہیں وفاقی وزیر بنانے سے انکار کرتے ہوئے دئیے تھے.
بعض حلقوں کی مداخلت اور مفاد کی وجہ سے دونوں پارٹیوں نے اتحاد پر اتفاق کیا اور چودھریوں نے عمران خان کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت ان کی وجہ سے نہیں گرے گی.
اس کے بدلے میں مسلم لیگ ق کو گجرات سمیت پنجاب کے چھ اضلاع میں غیر معمولی انتظامی اور سیاسی اختیارات دئیے گئے اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے مداخلت نہیں کی. لیکن یہ سب انتظامات آئندہ انتخابات تک کیلئے ہیں جن میں ڈیڑھ سال رہ گئے ہیں اور ق لیگ والے زرداری سمیت مختلف امکانات پر غور کر رہے ہیں. اس پس منظر میں پرویز الہٰی کی آصف زرداری سے بلاول ہاؤس لاہور میں دوگھنٹے طویل ملاقات سیاسی اہمیت رکھتی ہے. انہوں نے سیاسی صورتحال اور مستقبل کے سیاسی انتظامات پر تبادلہ خیال کیا.
پرویز الٰہی نے جس طرح پنجاب سے تمام سینیٹرز بلامقابلہ منتخب کرائے، زرداری نے اس کی تعریف کی. پرویز الٰہی نے بھی اس سلسلے میں زرداری کے امیدوار دستبردار کرانے کے کردار کو سراہا.
اگرچہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ زرداری کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں کیونکہ 2013 سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت کمزور ہے لیکن گجرات کے چودھریوں کی صورت میں انہیں ایسا کوئی مل گیا ہے جس کے ساتھ وہ کچھ پیش رفت کرسکتے ہیں.
اگرچہ دونوں پارٹیوں ق لیگ اور پیپلز پارٹی کا ماضی تلخ ہے لیکن زرداری نے بینظیر بھٹو کے قتل کے چند ہی ماہ بعد 2008 میں ن لیگ سے تعلق ختم ہونے پر(جب اس کے وزراء سابق صدر کے معزول ججوں کو جلد بحال کرنے سے انکار پر حکومت سے الگ ہوگئے تھے ) گجرات کے چودھریوں کے گھر جاکر پرویز الہٰی کو نائب وزیراعظم بنانے اور طویل مدتی تعلقات کی پیش کش کرکے انہیں حیران کردیا تھا. چودھری پرویز الٰہی نے ایک بار خود مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہوں نے ہمارے پاس آکر ہمیں حیران کردیا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ ماضی کو دفن کرنے آئے ہیں. وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے ایک دوسرے کے خلاف دلوں میں نفرت لے کر بڑے ہوں، پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم نے بھی اسی طرح جواب دیا.
چودھری پرویز الٰہی سے اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی ملاقات بھی سیاسی اہمیت رکھتی ہے. حمزہ نے ان کے بطور سپیکر بجٹ سیشن چلانے کے انداز کو سراہا. 2005 سے 2007 وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے چودھری پرویز الٰہی کے پنجاب سے سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب کرانے کو سب نے ہی سراہا ہے.انہوں نے قومی اور سندھ، بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے برعکس پنجاب اسمبلی کا بجٹ سیشن جس طرح کسی ہنگامے اور شور شرابے کے بغیر چلایا ہے وہ بھی قابل تعریف ہے.
انہوں نے بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کو احتجاج کرنے دیا اور پی ٹی آئی ارکان کو اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران پرسکون رہنے کیلئے منالیا.
اس لئے پیپلز پارٹی جب تک اپنی سمت کا تعین نہیں کرتی اور ایک نئے بیانیے کے ساتھ اپنی تنظیم نو نہیں کرتی ، پنجاب میں اس کی واپسی کے امکانات کم ہیں. زرداری کے مشن پنجاب کی کامیابی کا دارومدار مسلم لیگ اور پی ٹی آئی میں اختلافات اور پھوٹ پر ہے ۔