• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کے قیام (اکتوبر 1945)سے اس کی پہلی صد سالہ سالگرہ (اکتوبر 2045) تک کی صدی کو اگر جدید تاریخ کا زیر تحریر باب تسلیم کر لیا جائے تو اب تک اس باب کی 76فیصد مرتب تاریخ پر آج کا اوسط انسان شرمندہ ہی ہوگا لیکن تب، کہ اس میں انسانیت کی کوئی رمق باقی ہو۔ ماڈرن ہسٹری کے زیر تحریر باب کا آغاز خاکسار نے قیامِ اقوام متحدہ سے اس لئے کیا ہے کہ عالمی معاشرے کو شدید مایوس کرنے والے اس عالمی ادارے کی تشکیل تہذیبِ انسانی کے ارتقاکی عالمگیر اور ایجنڈے کے اعتبار سے شدید مطلوب شکل تو تھی ہی، اس کی بڑی اہمیت اور حسن یہ بھی تھا کہ اقوامِ عالم کے حقِ خود ارادیت، سرحدوں کے احترام اور امنِ عالم کو اپنے متفقہ چارٹر سے علانیہ یقینی بنانے والے اِس عالمی ادارے کا قیام، جنگِ عظیم دوم کے فاتحین، شکست سے دوچار ہونے والے ممالک اور مغربی سامراجی طاقتوں سے آزادی حاصل کرکے خود مختار مملکت کا درجہ حاصل کرنے والی ادارے کی رکن ریاستوں کے باہمی اشتراک سے ہوا۔ باوجود اس کے کہ گہری سامراجی سازش سے قائم کی گئی اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام میں اقوامِ متحدہ کی تشکیل پر ہی ’’بڑے‘‘ بن جانے والوں کی سرپرستی واضح تھی۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے بزور بازو تیزی سے آزاد ہونے کا عمل بھی جاری تھا، جسے سیز فائر کی اپیل کرکے روک دیا گیاپاکستان نے اپنی (محدود سی) عسکری کامیابیوں پر نومولود عالمی ادارے کی اپیل کو ترجیح دی۔

موجودہ آزاد کشمیر کے علاوہ باقی مقبوضہ علاقے کو بھی یقینی آزاد کرانے کا عمل روک کر عالمی ادارے کو محترم جانتے ہوئے گفت وشنید اور عالمی فیصلے سے تنازعہ حل کرانے کی شریفانہ امید نومولود عالمی ادارے پر اعتبار کرکے اس سے باندھ لی۔آج ہر دو کیسز مسئلہ کشمیر و فلسطین عالمی تنازعات کی حیثیت اختیار کرکے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے لئے دہکتے آتش فشاں بن چکے ہیں جن کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی دم توڑ رہی ہے کہ یہ پھٹ گئے تو اس سے صرف جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ ہی متاثر ہوں گے ہر دوتنازعات نے یو این چارٹر کی تو دھجیاں عشروں پہلے اڑا دیں، اس کے متفقہ فیصلے جس طرح’’بڑائی ‘‘ کے زور سے ختم کر دیئے گئے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے قدیم فلسفہ طاقت کی قدیم کہاوت کو آج کی بھی مصدقہ حقیقت بنا دیا گیا۔ دونوں مقبوضہ و محصور (بین الاقوامی فیصلوں کے مطابق ) متنازعہ علاقوں میں برسوں سے جاری خصوصاً اب ہونے والی بنیادی انسانی حقوق کی وحشیانہ اور ریاستی دہشت گردی کے ساتھ بیخ کنی کا عمل جاری ہے ، اس پر اقوام متحدہ کی بے بسی ،بے حسی یا مجرمانہ خاموشی نے عالمی سیاست کے ہر ہر شیطانی پہلو کو مکمل بے نقاب کر دیا ہے ۔

یہ پس منظر لئے دنیا کی تمام جائز اور عالمی سطح کے قابلِ قبول علانیہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے ساتھ چین جس تیزی سے عالمی اقتصادی طاقت کا درجہ حاصل کر رہا ہے،وہ دنیا کے امیر ترین ممالک کو ہرگز گوارا نہیں۔ان کے لئے چین کا ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا CONNECTIVITYپر بس کرتا ہوا عالمی منصوبہ جس کا آغاز ’’سی پیک‘‘ سے ہو گیا خطرے کی بڑی گھنٹی ہے کیونکہ اس کے نتائج ملکوں اور حکومتوں نہیںغریب عالمی آبادی کے حوالے سے شیئرڈ ہیں۔ یقیناً چین عالمی اقتصادیات کے میدان میں جو کامیابیاں سمیٹ رہا ہے وہ اب اس کا اولین اور مکمل جائز قومی مفاد تو ہے ہی لیکن اس کے حاسد بن گئے امیر ترین ممالک کے غرباء اور متوسط طبقات بھی بڑے بینی فشری بن چکے اور بنتے جا رہے ہیں۔چین کی فری مارکیٹ میں بھاری بھرکم سرمایہ کاری اور بے قابو ایکسپورٹ فلو، اس کی بھاری اور مسلسل آمدنی کا ہی ذریعہ نہیں اس سے CONNECTIVITY میں آئے ممالک میں جدید انفراسٹرکچر، سستی اشیاء کا سیلِ رواں اور روزگار کے بڑھتے مواقع ملکی اقتصادی استحکام اور عوامی خوشحالی کی ضمانت بن چکے ہیں۔

G-7ممالک نے اب جو 40ٹریلین ڈالر سے جملہ اقسام کی جنگیں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ اس کی خبریں بڑے اہتمام سے باہر آنے سے روکی گئی ہیں، لیکن پھر بھی نیوز فالو اپ خصوصاً منطقی اور استدلالی تجزیوں سے بہت کچھ واضح ہوگیا ہے کہ یہ منصوبہ G-7کے قیام کے علانیہ مقاصد کے مطابق عالمی اقتصادیات کو مستحکم رکھنے کی بجائے چین کے بڑھتے اقتصادی اثر اور حیثیت کو روکنے کا بڑا احمقانہ بلکہ تشویشناک منصوبہ ہے ۔ سرمائے کے زور پر یہ جنگ فقط یہاں تک محدود نہیں ہوگی اس میں روس کے چین ہی کی طرح باہر نکلنے کے جو مواقع بنتے نظر آرہے ہیں اس پر جغرافیائی جبر کا جو پھندہ پڑا تھا وہ قطب شمالی سے برفزار کے پگھلنے پر کھلتا نظر آ رہا ہے۔G-7اس قدرتی تبدیلی پر بھی بے حد پریشان ہیں اگر ڈنمارک نے ٹرمپ کو گرین لینڈ بیچنے کی فرمائش پر انگوٹھا دیا تھا تو روس کیسے یہ پریشانی برداشت کرے گا ۔بہت دلچسپ یہ ہو گا کہ امریکہ اور G-7کے بڑے ایشیائی پارٹنر بھارت (وہ بھی مودی کا) G-7کے تازہ لیکن غیر حقیقت پسندانہ عزائم کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ بنے گا ۔بھارت کیسے مشکل پارٹنر شپ نبھائے گا، اس کا منظر دنیا نے دیکھ لیا کہ سرمایہ داری کی ایجنٹ مودی حکومت اور بھارت کے کروڑوں کسانوں کی ایک دوسرے کے خلاف مزاحمت برابر کی ہے۔اس کے باوجود چین کے بڑھتے غریب نواز اثر اور روس کے جائز قومی مفادات کو بھاری بھرکم سرمائے سے جنگ کا نتیجہ پوری دنیا کے لئے تباہ کن ہوگا۔ امریکی یورپی تھنک ٹینکس اپنی حکومتوں کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ یہاں ان کے تیار کئے جانے و الے جنگی زونز سے جغرافیائی دوری کام نہیں آئی۔ٹرمپ نے سائوتھ چائنہ ایشو پیدا کرکے مشرقی ایشیا میں اور مودی کو یاری کی ہلہ شیری دے کر جنوبی ایشیا میں جنگ کا جو ماحول بنایا وہ ختم نہ کرنے پر امریکہ اور یورپ کے لئے بڑے خسارے کا سودا ہوگا ، شاید افغانستان کو جمہوری اور خوشحال بنانے میں اڑھائی ٹریلین ضائع کرنے سے بھی کہیں زیادہ کیونکہ G-7نے تو نئی وارگیم کےلئے 40بلین ٹریلین چندہ جمع کرنے پر اتفاق کیا ہے، تاکہ امیر ملکوں کی غربت کا گراف سرخ لائنوںسے آگے نہ بڑھے۔

تازہ ترین